اسلام آباد : الیکشن ترمیمی بِل 2023 پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے کثرت رائے سے منظور ہو گیا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں انتخابی اصلاحات کی 54 کلاز کی شق وار منظوری کی گئی۔
نگران حکومت کے اختیارات سے متعلق الیکشن ایکٹ کی شق 230 کثرت رائے سے منظورکی گئی جبکہ اس شق پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی، جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق اور تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے اعتراض اٹھایا۔
الیکشن ایکٹ کی شق 230 کے تحت نگران حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے، مجوزہ ترمیم میں مزید ترمیم کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ نگران حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی۔
الیکشن ایکٹ میں جو دیگر ترامیم کی گئی ہیں ان کے تحت پریزائڈنگ افسر نتیجے کی فوری طور پر الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ آفیسر کو بھیجنے کا پابند ہوگا۔
ترامیم کے بعد پریزائیڈنگ افسر الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہوگا۔ اور تاخیر کی صورت میں ٹھوس وجہ بتانے کا پابند ہو گا۔ترمیمی بل کے مطابق حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے کی جائیں گی۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کی شق وار منظوبری کے دوران ایوان کو بتایا کہ انتخابی اصلاحات بل میں کوئی نئی تبدیلی نہیں کی جارہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو معاہدے وفاقی حکومت نے پہلے سے طے کرلیے ہیں ان پر نگران حکومت کو کام کرنے کی اجازت مانگ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سینیٹر رضا ربانی نے بھی آرٹیکل 230 پر اعتراض اٹھایا تھا۔دوسری جانب اس بل پر شق وار منظوری کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اعتراض اٹھایا کہ ہم غلامی میں اتنے آگے چلے گئے ہیں کہ آئی ایم ایف کے لیے اپنے الیکشن کے قوانین بھی بدل رہے ہیں۔
اس سے قبل پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ نگران حکومت کو اختیار دینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ نگران حکومت کو اختیار دینے والے خواجہ آصف خود نگران حکومت کے اختیارات کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے۔ ناگر اس شق میں ترمیم ختم نہ کی گئی تو سپریم کورٹ اڑا دے گی۔پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سات اگست دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔