پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں سیاسی صوت حا ل اس حد تک گمبھیر ہو چکی ہے کہ جنرل انتخابات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آرہا‘وفاق میں چند کلومیٹر تک محدود ن لیگی حکومت نے جیسے پنجاب میں شب خون مارا‘تاریخ اسے کبھی نہیں بھولے گی۔وفاق اور پنجاب‘دونوں جگہ ن لیگ اقلیتی جماعت ہے اور تحریک انصاف اکثریتی مگر حکومت ن لیگ کے پاس ہے اور یہ لوگ اقلیت میں ہو کر دھونس ایسے جما رہے ہیں جیسے پنجاب اوروفاق میں بھی کلین سویپ کر کے بیٹھے ہوں۔ایک طرف یہ بیانیہ کہ ہم عوام کا فیصلہ تسلیم کریں گے اور دوسری جانب اگر عدالتی فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو ہم تسلیم نہیں کریں گے‘یہ دوہرا معیار خود کو جمہوری پارٹی کہنے والی ن لیگ کا ہے۔کل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ حمزہ شہباز کی تقرری غلط ہے‘ڈپٹی سپیکر نے جس خط کوپڑھ کر رولنگ دی‘وہ رولنگ بھی غیر آئینی تھی۔چیف جسٹس استفسار کرتے رہے کہ جناب وہ پیرا پڑھ کر سنائیں جس کے تحت یہ فیصلہ لکھا گیا ‘جواب میں وکیل عرفان قادر بولے جناب ’میری تو پہلی پیشی ہے اور آپ مشکل امتحان لے رہے ہیں‘۔کل کی سماعت کورٹ روم میں لائیوسنتے ہوئے یہ لگ رہا تھا کہ عرفان قادر معاملے کو بغیر وجہ کے طول دے رہے ہیں ‘ عدالت ان سے دستاویزات کا استفسار کرتی رہی جو ان کے پاس نہیں تھیں‘یہاں تک کہ چودھری شجاعت کا وہ خط تک عدالت میں نہ لائے جس کی آڑ میں شب خون مارا گیا۔ تقریباً پونے گھنٹے کی ہیئرنگ کے بعد عدالت نے حمزہ شہباز کو عبوری وزیر اعلیٰ بناتے ہوئے سماعت سوموار تک ملتوی کر دی۔معزز ججز کے ریمارکس اور ساری کارروائی سے یہ اندازہ ہو گیا کہ کیس تحریک انصاف جیت جائے گی مگر نہ جانے کیا مصلحت تھی کہ سماعت پیر کو اسلام آباد میں رکھی گئی اور یوں فیصلہ بھی پیر تک ملتوی کر دیا گیا اور میرا ذاتی خیال ہے کہ ن لیگ دھمکیوں اور عدلیہ کے خلاف منفی پراپیگنڈا سے کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے گی۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ہی میڈیا پر مخصوص صحافیوں کے ذریعے یہ خبر بریک کی گئی کہ حکومتی اتحادی پارٹیوں اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات ہونے جا رہے ہیں جس میں
اسٹیبلشمنٹ بھی ’نرم مداخلت‘کرے گی اور یوں وطنِ عزیز کو اس سیاسی‘معاشی اور آئینی بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔مذاکرات جیسے بھی ہوں مگر واحد حل انتخابات ہوںگے اور میرے خیال سے تحریک انصاف نئے انتخابات کے علاوہ کسی بھی اور نکتے پر مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہو گی۔
اس ساری صورت حال میں‘ میں زرداری کو کریڈٹ دیتا ہوں کہ انھوں نے ہمیں یاد دلا دیا کہ’’بھٹو واقعی زندہ ہے‘‘۔ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کی یاد دلا دی کہ اس وقت بھی اقتدار کی بھوک میں پاکستان کی سیاست پر کیسے شب خون مارا گیا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ بھی پوری منصوبہ بندی سے ہوا‘نون لیگ کا پنجاب میں صفایا کرنے کا اچھا موقع تھا جو زرداری نے ہاتھ سے جانے نہ دیا‘تیسری قوت نے شجاعت اور زرداری کو اکٹھا بٹھا دیا‘ بدنام زرداری ہو گیا مگر یہ بھی بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ مشرف دور میں ق لیگ چہیتی جماعت رہ چکی ہے‘ کئی اہم وزارتیں اور عہدے ق لیگ کے پاس تھے لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ شجاعت نے یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا اگرچہ یہ فیصلہ پنجاب میں ن کے ساتھ ق لیگ کے خاتمے کا بھی باعث بنے گا مگر اس سے تحریک انصاف کو فائدہ پہنچے گا۔ایک طرف مسلم لیگ ن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی اور دوسری طرف ق لیگ‘میری بات کی تصدیق میاں نواز شریف کا گزشتہ بیان کرے گا‘لندن میں گفتگو کے دوران نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’اتحادیوں اور بعض پارٹی رہنمائوں کی وجہ سے ن لیگ مشکل میں پھنس گئی ہے‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ ن لیگ کو اس نہج پر پہنچانے میں مریم نواز کی بے تکی تقاریر اور زرداری کے غلط مشوروں نے اہم کردار ادا کیاہے اورمولانا فضل الرحمن کے تو کیا ہی کہنے‘جس پارٹی کے ساتھ بھی بیٹھے‘اس کا ’’بھٹہ ‘‘بٹھا دیا۔
تحریک انصاف فائدے میں رہ گئی‘جیت یا ہار ایک طرف رکھ کر سوچیں تو ن لیگ اور اتحادی جماعتوں کی موجودہ غلط منصوبہ بندی سے فائدہ عمران خان کو ہوا کیوں کہ اتحادیوں پر عوام کا پہلا غم و غصہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ انھوں نے دوبارہ دھاندلی سے سیٹ پر قبضہ کر لیا اور عوام یہ سب دیکھ رہے ہیں۔کیا اچھا ہوتا کہ ن لیگ اور اتحادی یہ عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے اور تخت ِ پنجاب چودھریوں کے حوالے کر دیتے‘پنجاب میں جو سیاسی بحران چل رہا تھا اور مہنگائی جس قدر بڑھ چکی تھی‘نئی حکومت کے لیے اسے کنٹرول کرنا بہت مشکل ہو جاتا اور یوں عمران خان پنجاب میں ناکام ہو سکتے تھے مگر ن لیگ کا پرانا وتیرہ ہے کہ یہ اقتدار سے دور نہیں رہ سکتے‘یہ اقتدار سے باہر ہوں تو اقتدار میں آنے کا ہر حربہ استعمال کرتے ہیں اور جب اقتدار میں آ جائیں تو یہ کانوں میں روئی ڈال لیتے ہیں تاکہ عوام کی کوئی بھی بات ان کے کانوں تک نہ پہنچ سکے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ن لیگ کے پاس جنرل انتخابات میں جانے کا بہترین موقع ہے ‘ اس سے ان کی عزت بھی رہ جائے گی اور نئے انتخابات میں امید ہے یہ کچھ سیٹیں بھی نکال سکیں۔اس ڈر کو دل سے نکال دیں کہ جنرل انتخابات میں عوام ہمیں ووٹ نہیں دیں گے بلکہ الیکشن کمپین پر توجہ دیں‘جو غلطیاں ہو چکیں عوام سے معافی مانگیں اور ان کو اعتماد میں لیں کہ ہم پر ایک دفعہ بھرو سہ کریں‘ہم مستقبل میں وہ غلطیاں نہیں دوہرائیں گے۔نواز شریف عدمِ اعتماد کے ذریعے حکومت لینے کے پہلے حق میں تھے اور نہ آج مگر اتحادیوں نے ن لیگ کو ایسے سبز باغ دکھائے تھے کہ شہباز شریف بھی وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ بیٹھے جو شرمندہ تعبیر ہو گیا مگر میاں صاحب اور پوری ن لیگ خود بھی’’ شرمندہ‘‘ ہو گئی۔ اس ساری صورت حال سے جان چھڑانے کا بہترین آپشن مذاکرات نہیں بلکہ نئے انتخابات کا اعلان ہے‘ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم اکتوبر میں جنرل انتخابات کرانے کے لیے تیاری کر چکی ہے‘ مذاکرات تو ایک بہانہ ہیں تاکہ عمران خان کو کچھ ماہ چپ کرایا جا سکے مگر جیسے بھی ہے‘ہمیںاس ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا ہوگا اور اس کا بہترین حل نئی جمہوری حکومت ہے‘اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ ’نرم مداخلت ‘کے ذریعے اپنا کردار ادا کرے یا حکومتی اتحادی۔سچ یہ ہے کہ اگر اب بھی ملک کے لیے نہ سوچا گیا تو حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے اور خدا نخواستہ ہم ڈیفالٹ کر جائیں‘وقت پر سمجھ جائیں تو بہتر ہوگا۔آخر میں اوکاڑہ کے باکمال شاعر مسعود احمد کے حالات حاضرہ پر کچھ اشعار:
سوچا تھا جس طرح سے،ابھی تک نہیں ہوا
لیکن جو ہو چکا ہے یکایک نہیں ہوا
اندھوں کی ایک فوج اندھیرے کے ساتھ تھی
یہ شہر بے چراغ یکایک نہیں ہوا
حالات و واقعات نے ہونا ہے آئینہ
بے شک کسی کو تم پہ ابھی شک نہیں ہوا
گاہے بگاہے ڈالتا رہتا ہے پیشیاں
پوری طرح سے اس کو ابھی پک نہیں ہوا