عوام کے مختلف طبقات جن میں سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں کو اگر کچھ سہولیات اور مالی مرعات ملتی ہیں یا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں اضافہ ہوتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے تاہم اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال کیا اس قابل ہے کہ وہ اضافہ شدہ مالی مرعات اور سہولیات وغیرہ کو برداشت کر سکے اور اس کے ساتھ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ جو مراعات اور سہولیات دی جا رہی ہوں وہ منصفانہ اور جائز ہی نہ ہوں بلکہ اُن سے ملازمین کے مختلف طبقات کے درمیان کسی طرح کی تفریق اور باہمی مناقشت کے جذبات تو نہیں جنم لے رہے؟ میں معذرت خواہ ہوں کہ یہ تمہید مجھے میڈیا میں آنے والی دو خبروں کی بنا پر باندھنا پڑی ہے۔ پہلی خبر ایک قومی معاصر میں صفحہ اول کے اپرہاف میں چھپی ہے جس کی دو کالمی سُرخی کچھ اس طرح ہے "وفاقی سیکریٹریٹ افسران کو 150فیصد ایگزیکٹیو الاؤنس دینے کی منظوری، اطلاق یکم جولائی 2022سے ہو گا، انفارمیشن گروپ، آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس و دیگر شامل نہیں"دوسری خبر جمعرات کے اخبارات میں چھپی ہے ، ایک دوسرے قومی معاصر کے صفحہ آخر پر چھپنے والی دو کالمی خبر کی سُرخی اس طرح ہے"افسران ایگزیکٹیو الاؤنس ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ، 400اکانومسٹ اور ٹیکنیکل کیڈر کے افسران الاؤنس سے محروم رہ گئے"۔
ان دونوں خبروں کی تفصیلات اور ایگزیکٹیو الاؤنس کیا ہے اور کن کو دیا جا رہا ہے اور کن کو نہیں دیا جا رہا وغیرہ جاننے کے لیے ہمیں ان خبروں کے متن کو دیکھنا ہوگا۔ سیکریٹریٹ ملازمین کو 150فیصد ایگزیکٹیو الاؤنس دینے کے بارے میں خبر کے متن میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے وفاقی سیکریٹریٹ کے گریڈ 17سے گریڈ22کے افسران کو بنیادی تنخواہ 150فیصد ایگزیکیٹو الاؤنس دینے کی منظوری دے دی۔ وزارتِ خزانہ نے ایگزیکٹو الاؤنس کے اجرا کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ ایگزیکٹوالاؤنس کا اطلاق وفاقی سیکریٹریٹ ، اسلام آباد انتظامیہ ، وزیرِ اعظم آفس اور ایوانِ صدر کے گریڈ 17سے گریڈ 22تک افسران کو 30جون 2022کی بنیادی تنخواہ کے ڈیڑھ گنا کے برابر دیا جائے گا۔ اس کا اطلاق یکم جولائی 2022سے ہوگا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ایگزیکٹیو الاؤنس اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے دائرہ کار میں آنے والے تمام افسران جن میں وزارتوں اور ڈویژنوں کے وفاقی سیکریٹریز ، سپیشل سیکریٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز، سنیئر جوائنٹ سیکریٹریز ، ڈپٹی سیکریٹریز اور سیکشن آفیسر پر لاگو ہوگا۔ علاوہ ازیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد انتظامیہ کے دفاتر میں تعینات چیف کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کو بھی ملے گا۔ ذرائع کے مطابق انفارمیشن گروپ، آڈٹ اینڈ اکائونٹس، ریلوے، ان لینڈ ریونیو سروسز، پاکستان کسٹم سروسز، فارن سروسز، پوسٹل سروسز سمیت اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے
دائرہ کار میں نہ آنے والے دیگر تمام وفاقی اداروں کے افسران کو ایگزیکٹیو الاؤنس نہیں ملے گا۔
دوسری خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزارتِ منصوبہ بندی کے ایگزیکٹیو الاؤنس سے محروم رہ جانے والے 400اکانومسٹ اور ٹیکنیکل کیڈر کے افسران نے وفاقی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے 150فیصد ایگزیکٹیو الاؤنس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 19جولائی کو وزارتِ خزانہ نے گریڈ 17سے 22کے بنیادی پے سکیلز پر خدمات انجام دینے والے وفاقی سیکریٹریٹ ، وزیرِ اعظم آفس اور صدر کے سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے افسران کو 150فی صد کو ایگزیکٹیو الاؤنس دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا لیکن اس میں ایک ہی چھت کے نیچے خدمات سر انجام دینے والے ٹیکنیکل اور اکانو مسٹ کیڈر کے 400افسران کو محروم رکھا گیا جس پر ان میں سخت تشویش پائی جاتی ہے اور متاثرہ افسران نے وزارتِ خزانہ کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کافیصلہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ امتیازی اور کابینہ کے فیصلے کے خلاف ہونے کے علاوہ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے چیف جسٹس اسلام آباد سے بھی اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ دریں اثنا حکومت نے گریڈ 20سے 22تک افسران کو 15فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کا بھی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق ڈسپیرٹی الاؤنس یکم جولائی سے نافذ العمل ہوگا۔ یاد رہے کہ گریڈ1سے لے کر 19تک کے ملازمین کو یکم مارچ سے 15فیصد ڈسپیرٹی الاؤنس دے دیا گیا تھا۔ اب حکومت نے گریڈ 20سے 22تک کے ملازمین کو بھی یہ الاؤنس دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔
وفاقی سیکریٹریٹ کے گریڈ 17سے 22کے افسران کو 150فیصد ایگزیکٹو الاؤنس دینے اور گریڈ 20تا 22تک کے افسران کو 15فیصد ڈسپیریٹی الاؤنس دینے کے بارے میں خبریں بڑی واضح ، غیر مبہم، Self Explainatry ہیں۔ گریڈ 1تا 19کے وفاقی ملازمین کے لیے یکم مارچ سے ڈسپیریٹی الاؤنس دینے کا اعلان عمران خان نے کیا تھااس میں گریڈ 20تا22کے وفاقی ملازمین شامل نہیں تھے۔ بجٹ میں ان ملازمین کو بھی ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اب یکم جولائی سے اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے ۔ یقناً اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اصل مسئلہ 150فیصد ایگزیکٹیو الاؤنس دینے کا ہے۔ اس میں بنیادی تنخواہ کے 150فیصد یعنی ڈیڑھ گنا الاؤنس دینے کی جو شرح رکھی گئی ہے اور وفاقی سیکریٹریٹ اور وفاقی وزارتوں کے ملازمین میں اس کے دینے یا نہ دینے کی جو تخصیص کی گئی ہے بلاشبہ یہ ایسے پہلو ہیں جن پر تحفظات کا اظہار اگر سامنے آئے تویہ کچھ ایسا غیر مناسب نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ کیا یہ قابلِ غور پہلو نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے دائرہ کار میں آنے اور 150فی صد ایگزیکٹو الاؤنس لینے کا حقدار گردانے جانے والا گریڈ 18کا ایک افسر جس کی بنیادی تنخواہ فرض محال اگر 40000روپے ہے تو اس کو اس کی اس تنخواہ کا ڈیڑھ گنا یعنی 60000روپے ایگزیکٹو الاؤنس ملے گا تو اس کے ساتھ کام کرنے والے نچلے درجے کے ملازمین جو ایگزیکٹیو الاؤنس لینے کے اہل نہیں ہیں یا دوسری وفاقی وزارتوں کے ملازمین جن کو یہ الاؤنس نہیں دیا جا رہا ہے تو ان کے دل پر کیا گزرے گی ؟ کیا اس کووہ بری طرح محسوس نہیں کریں گے؟ اور ان کے دل میں ایگزیکٹو الاؤنس لینے والے وفاقی ملازمین کے بارے میں نفرت اور مخاصمت کے جذبات پیدا نہیں ہونگے؟ کیا اس سے 150فیصد ایگزیکٹیو الاؤنس دینے کا فیصلہ کرنے والوں اور اس کی منظور ی دینے والی وفاقی حکومت کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا نہیں ہونگے؟ کیا اس سے ایگزیکٹیو الاؤنس حاصل نہ کرنے والوں کی ذیل میں آنے والے وفاقی ملازمین میں بحیثیت مجموعی بد دلی ، مایوسی اور اپنے فرائض سے کوتاہی برتنے کی ایک عمومی فضا جنم نہیں لے گی؟ یقناً یہ تمام پہلو ایسے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اعلیٰ حکومتی اداروں بالخصوص وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف اور وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کا فرض بنتا ہے کہ ان پہلوؤں کی طرف توجہ دیں اور دیکھیں کہ کیا 150فی صد ایگزیکٹیو الاؤنس دینے کے تخصیصی فیصلے سے اُن کی حکومت کے خلاف مخالفانہ جذبات تو پروان نہیں چڑھ رہے ہیں؟
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ راقم کو سرکاری ملازمین کو ملنے والی سہولیات یا مالی مرعات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین بلاشبہ ہمارے ملک کا ایک انتہائی قابلِ احترام طبقہ اور حکومتی مشینری کا لازمی جزو ہیں ۔ ان کے بغیر حکومتی معاملات اور روزمرہ کے امور سر انجام نہیں پا سکتے۔ فیصلہ سازی اور احکامات کو عملی جامہ پہنانا ، دفتری امور کو سرانجام دینااور قواعد ضوابط اور اپنے کارِ منصبی کی حدود میں رہ کر ضروری امور سر انجام دینا ان کے فرائض ِ منصبی میں شامل ہوتا ہے۔ سرکاری ملازمین مطمئن اور آسودہ ہونگے تو بہتر طور پر اپنے فرائض منصبی سر انجام دے سکیں گے۔ لیکن ان میں کسی طرح کی تخصیص کر نا یا کچھ مخصوص کیڈرز یا مخصوص محکموں یا مخصوص مقامات پر ڈیوٹی سر انجام دینے والوں کو ایک بڑی سہولت یا مالی مرعات دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا یقینا ایسا فیصلہ یا لائحہ عمل نہیں سمجھا جا سکتا جس کی تائید کی جا سکے یا اس کو منصفانہ قراد دیا جا سکتا ہے۔
یہاں ملک کی مجموعی معاشی صورتحال کا حوالہ دینا بھی کچھ ایسا بے جانہیں ہے ، ایک طرف ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ بجٹ میں اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھاری بھرکم ٹیکسز کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔ اس سے قبل اونچے درجوں کے سرکاری ملازمین کے پیٹرول الاؤنس میں کمی کی جا چکی ہے اور اس کے ساتھ کفایت شعار ی اور بچت کی تلقین بھی ہوتی رہتی ہے تو دوسری طرف کچھ مخصوص کیڈرز کے سرکاری ملازمین کے ایگزیکٹیو الاؤنس میں تنخواہ کے ڈیڑھ گنا کے برابر اضافہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ یہی کہا جا سکتا ہے ۔ ایں چہ بوالعجبی است !