آزاد جموں و کشمیر کے جو انتخابی نتائج آئیں ہیں وہ کوئی غیر متوقع نہیں ہیں، مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کامیابی حاصل کر لیتی تو یہ اپ سیٹ ہوتا ۔ الیکشن سے قبل یہ بات طے تھی کے تحریک انصاف ہی آزاد کشمیر میں حکومت بنائے گی بس یہ دیکھنا تھا کہ گذشتہ انتخابات جس میں اس کی دو نشستیں تھیں اس میں کتنا اضافہ ہوتا ہے ، مسلم لیگ (ن) جس کی 33 نشستیں تھیں اس میں کتنی کمی ہوتی ہے اور پیپلز پارٹی جس کی تین نشستیں تھیں وہ اس بار کشمیرکے انتخابات سے اپنا کتنا حصہ حاصل کرتی ہے ۔
کشمیریوں نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وفاق میں جس کی حکومت ہے اسے ہی کشمیر میں حکومت بنانے کا موقع دیا ہے ۔ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات کا تجزیہ کریں تو پاکستان کی سیاست میں جو تناو ہے اس کا ردعمل ہمیں آزاد کشمیر کے الیکشن میں نظر آیا ، حکومت اور اپوزیشن کے رہنماوں نے ایک دوسرے کے خلاف خوب دل کھول کر بھڑاس نکالی ۔ آزاد کشمیر کے الیکشن ریاستی جماعتوں کے کمزور ہو جانے کے باعث پاکستان کی جماعتوں کے درمیان ہوئے اس لیے کشمیر کے الیکشن میں بھی ہمیں پاکستانی سیاست کا رنگ نظر آیا۔ ایک وقت تھا جب لبریشن لیگ ، مسلم کانفرنس سمیت دیگر ریاستی جماعتوں کے درمیان مقابلہ ہوا کرتا تھا پھر بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی پہلی غیر ریاستی جماعت تھی جس نے الیکشن میں حصہ لیا اور پھر پاکستانی سیاسی جماعتوں نے کشمیر کا رخ کر لیا ۔ کشمیر کے الیکشن میں کسی کے بیانیہ کی ہار ہے اور نہ کسی کے بیانیہ کی جیت ووٹرز یہ دیکھتے ہیں کہ کون ان کے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔
وفاقی حکومت نے فنڈز جاری کرنے ہوتے ہیں اس لیے کشمیریوں کی پہلی چوائس وہ پارٹی ہوتی ہے جس کی وفاق میں حکومت ہو ۔ انتخابی مہم کو دیکھا جائے تو مریم نواز نے بھرپور انتخابی مہم چلائی اور متاثر کن جلسے کر کے ووٹرز کو متحرک کیا، انتخابی فضا بنائی لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ (ن)حسب منشا نتائج حاصل نہ کر سکی ۔
اس بارے میں مسلم لیگ کے دوستوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ پارٹی قیادت کے لئے سوالیہ نشان ہے کہ اس نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور پنجاب کی تقریبا تمام سیٹیں ہار گئے ۔ پارٹی صدر اپنے شہر لاھور کی سیٹ، جنرل سیکرٹری اپنے شہر نارووال کی سیٹ جبکہ خواجہ آصف اپنے شہر سیالکوٹ کی سیٹ نہیں بچا سکے۔ پنجاب کی ذمہ داری ان رہنماوں کے پاس تھی کیونکہ مریم نوازشریف نے تن تنہا آزاد کشمیر میں عمران خان ، اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کی اے ٹی ایم مشینوں کے خلاف محاذ سنھبال رکھا تھا۔
مسلم لیگ ن نے جو نشستیں جیتیں وہ آزاد کشمیر سے جیتیں۔ پنجاب کی سیٹوں پر مسلم لیگ ن کی شکست پارٹی کے دیگر رہنماوں کے لیئے سوالیہ نشان ہے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں چیف الیکشن کمیشن کمزور دکھائی دیے جو اپنی رٹ کو قائم نہیں کر سکے ۔ الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کو آزاد کشمیر سے نکل جانے کے احکامات جاری کیے لیکن وہ انتظامیہ سے اپنے فیصلے پر عملدرآمد نہ کر ا سکے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ اپنے فیصلوں پر آئین و قانون کے مطابق عملدرآمد کرا سکے ۔ اپوزیشن جماعتوں کو چاہے کہ وہ دھاندلی کے الزامات کی بجائے ٹھوس شواہد ہیں تو وہ سامنے لے کر آئیں ورنہ جس دھاندلی کا وہ ذکر کر رہے ہیں ماضی میں وہ خود اس کے بینیفشری رہے ہیں اور اگر انہیں اس پر اعتراض ہے تو انہیں اپنے دور میں انتخابی اصلاحات کرنا چاہیں تھیں جو انہوں نے نہیں کیں، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے لیے ہونا تو یہ چاہے کہ پاکستان ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں ایک ساتھ الیکشن ہوں تاکہ یہ روایت ختم ہو کہ جس کی وفاق میں حکومت ہے وہ ہی جماعت گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیرمیں حکومت بنائے گی ۔
تحریر، کاشف سلیمان
نوٹ: لکھاری کی رائے اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے نئی بات میڈیا گروپ کا متفق ہونا ضروری نہیں!