آزاد کشمیر میں حکمرانی کی جنگ باہمی دوریاں اور دلوں کی نفرتیں بڑھا گئی، کدورتیں دو چند ہو گئیں، انتخابی مہم کے دوران کارکردگی کا نہیں بد زبانی، بد کلامی اور گالیوں کا طومار باندھا گیا۔ چہ خوب، اخلاقی اقدار سر پیٹتی رہ گئیں۔ حکمرانی کی جنگ جس نے جیتی جو ہارا، عوام کا فیصلہ، بشرط کہ اسے تسلیم کیا جائے۔ کشمیریوں نے سوچ سمجھ کر ہی ووٹ دیا ہو گا۔ نہیں دیا تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ ہم تو ان کے حق خود ارادیت کے حامی ہیں۔ پاکستان کے 23 کروڑ عوام بھی تو سوچ سمجھ کر ہی ”کھمبوں“ کو ووٹ دیتے ہیں اور 5 سال تک روتے کرلاتے رہتے ہیں۔ عوام بھی ایسے شریف اور بھلے مانس کہ اپنے ووٹ کی توہین پر بھی خاموش رہتے ہیں اور آنے والوں کو برداشت کرتے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے الیکشن مدتوں یاد رہیں گے۔ الیکشن مہم کے دوران کیا کیا بد زبانیاں منظر عام پر آئیں جلسوں میں ”نا پختہ ذہن“ لیڈروں کی تقریریں، غداری کے فتوے، گالیاں، بد زبانی اور ٹی وی چینلز پر کیا کیا دیکھنے اور سننے کو ملا۔ اپوزیشن پر الزامات،پرانے الزامات کی تکرار، خواتین پر تیروں کی بوچھاڑ، ترکش میں کوئی تیر باقی نہیں بچا۔ قند مکرر، جواب میں اپوزیشن کے بھرپور وار، الیکشن سے پہلے ہی جیت کے دعوے، اعلانات، بلاول بھٹو نے تو ببانگ دہل اعلان کردیا کہ کشمیریوں نے اسلام آباد اور دہلی کو ہرا دیا ہے۔ کشمیری عوام فیصلہ کریں، لڑنا ہے تو ان کے ساتھ لڑیں گے۔ کسی کی ڈکٹیشن پر نہیں چلیں گے۔“ کشمیر کے جانباز تو سروں پر کفن باندھے بھارتی استبداد کے خلاف 70 سال سے لڑ رہے ہیں، تاریخ پڑھی ہے؟ تاریخ کے اوراق میں کیا لکھا ہے؟ شہدائے کشمیر کے شانہ بشانہ کون لڑا؟ بچے کیا جانیں سب کچھ ان کی پیدائش سے پہلے ہوا، ان کے بڑوں نے جو بتایا انہوں نے دہرا دیا۔ کشمیر کی جنگ تو 1948ء سے جاری ہے۔ سر بکف مجاہدین نے جو علاقہ آزاد کرایا آج ہم اسی پر کھڑے نعرے لگا رہے ہیں۔ شہدائے کشمیر کی کہانیاں، سرفروشی کی داستانیں سینوں پر رقم ہیں۔ ان کی کہانیوں میں کئی موڑ آئے، نئے آنے والوں کو تو ان کہانیوں کا سرے سے علم نہیں کشمیریوں نے بھارتی تسلط اور استبداد سے آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں کشمیریوں نے جام شہادت نوش کیا۔ کشمیریوں سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جنگ جاری ہے۔ معاف کیجیے ہمارے بیشتر سیاستدان اپنے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر آتش فشاں بیانات کے گولے داغتے رہتے ہیں۔ برسوں سے یہی ہو رہا ہے۔ اندرا گاندھی، راجیو، باجپائی یا سر تا پا ہندو نریندر مودی پر ان بیانات کا کیا اثر ہوا۔ زبانوں کے تیر غیرت مندوں کو زخم لگاتے ہیں۔بے غیرتوں پر ان کا اثر نہیں ہوتا۔ یہ بات نہیں کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ کشمیر کی آزادی کے لیے چار جنگیں لڑی گئیں، ہمارے ہزاروں بہادر جوانوں نے بزدل بھارتی فوجوں کا ہر
محاذ پر ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ کشمیر ہمارا نا مکمل ایجنڈا آزاد ہو کر پاکستان سے الحاق ہوجائے تو پاکستان مکمل، بھارت جائے بھاڑ میں ہمیں ان سے کیا لینا دینا، وہاں رہ جانے والے تیس پینتیس کروڑ مسلمانوں کو کیا ملا ہے۔ ایک دوسرے پر غداری کا الزام بے سود، کون غیرت مند اور محب وطن لیڈر مودی سے دوستی پسند کرے گا۔ ہمارے کتنے بہادر اور کڑیل جوان شہید ہوئے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، اب تک جام شہادت نوش کر رہے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر وہیں کا وہیں،کشمیریوں کے جمہوری حقوق بد ستور غصب، اقوام متحدہ کی قرار دادیں غتر بود، اقوام متحدہ نے بھارت کا کیا بگاڑ لیا۔ کشمیر کا مقدمہ لے کر جس در پر گئے اس نے بھارت کی آمادگی کی شرط پر ثالثی کی حامی بھرلی، امریکا کی ثالثی، سبحان اللہ۔ بندر بانٹ یاد آگئی، لکڑ ہضم پتھر ہضم، پاکستان کو اس پر انحصار سے کیا ملا، کیا ملے گا، پھر بھی امریکہ برسوں ہمارا ان داتا رہا۔ سلامتی کونسل حق خود ارادیت کی راہ میں بھاری پتھر، جب بھی مسئلہ کشمیر پیش ہوا امریکہ اور اس کے حواریوں نے ویٹو کردیا۔ ہمارا حمایتی صرف چین،”چین اپنا یار ہے۔ اس پہ جاں نثار ہے“۔ مودی نے امریکہ کی شہ پر کشمیر ہضم کر لیا اپنے آئین سے وہ شق ہی ختم کر دی جو کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیتی تھی۔ بزعم خود 5 اگست کو چیپٹر کلوز، ہم نے اس کم بخت، بد بخت نسل پرست دہشتگرد کو کہاں کہاں برا بھلا نہیں کہا۔ کیسا بے غیرت ہے کوئی اثر ہی نہیں نہیں لے رہا۔ معاف کیجیے آزاد کشمیر کے انتخابات کاذکرکرتے کدھر نکل گئے۔ مسئلہ کشمیر حل کرنے نکلے تھے انتخابی مہم کے دوران اپنے مسئلے لے بیٹھے، وہی کرپشن کا رونا دھونا، منی لانڈرنگ کا ذکر خیر، این آر او نہ دینے کا قصہ، برباد معیشت کے 3 سال بعد بھی نوحے، آزاد کشمیر کے 30 لاکھ عوام کا ان باتوں سے کیا لینا دینا، جسے چاہا منتخب کرلیا۔کہانی ختم۔ مظلوم لوگ ہیں ہر حکومت سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ ”چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہ رو کے ساتھ، پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں“ والا حال ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر ایک کے مامے چاچے بن کر گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ ”وہ جن کے کام ہیں شیطانوں جیسے، وہی خود کو فرشتے بولتے ہیں“ انتخابی مہم کے دوران ازلی ابدی بغض و عناد کھل کر سامنے آگیا۔ سابق وزیر اعظم کی روح چین نہیں لینے دیتی۔ بڑے جلسے، چھوٹے جلسے، جلسوں میں کتنے کشمیری شامل تھے؟ گنتی فضول، انتخابات ہوگئے جسے جیتنا تھا جیت گیا۔ بد زبانی ختم نہیں ہوئی، مسلسل غیر پارلیمانی زبان و بیان، غیر مہذب الفاظ کا چناؤ، سیاسی داؤ پیچ میں اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ، جوتے پڑے، ریلی پر فائرنگ ہوئی کوئی اثر نہیں، اقتدار اصل ہدف بنیادی مقصد، کاش نئے لیڈر کشمیریوں کو اپنے کارنامے بتاتے کامیابیوں کا ذکر کرتے، علاقہ کی ترقی کے لیے تین سال میں کیا کیا،کتنے فنڈز ریلیز کیے گئے، زخم خوردہ کشمیریوں کو مودی کا یار اور غدار وغیرہ کی باتوں سے کیا غرض، گالم گلوچ اور بد زبانی سے سینوں میں گہرے گھاؤ لگا دیے۔ جلسے میں 80 سالہ کشمیری بزرگ نعروں سے بے نیاز مقبوضہ کشمیر میں موجود اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو یاد کر کے آنسو بہا رہا تھا۔ جھنڈا اٹھائے نوجوان نے اس کو نعروں کا جواب دینے کے لیے کہا تو نالوں کا جواب آیا کہ ”وہ کیا کرے گا خطرہء فردا سے با خبر، اپنے ہی دائیں بائیں کی جس کو خبر نہیں۔“ آزاد کشمیر کا الیکشن ریہرسل، 45 نشستوں پر 724 امیدواروں میں مقابلہ ہوا۔ کمال ہے یہاں بھی حسب عادت پیسے تقسیم کیے گئے، اللہ خیر کرے پاکستان میں جلد یا بدیر 342 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ انتخابی اصلاحات اب تک ندارد، 9 کروڑ سے زائد ووٹر، ہزاروں امیدوار، گالم گلوچ سے بھرپور انتخابی مہم، تب کیا ہوگا، دنگا فساد، فائرنگ، گھن گرج، ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی فکر کے بجائے سیاست کے جنگل میں اخلاقیات سے عاری بیانات اور تقریریں، نئے شکاری پرانے جال کندھوں پر ڈالے انتخابی دنگل میں حصہ لیں گے۔ اللہ اس وقت سے بچائے جب لانے والے سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی۔