یہ کہانی پاکستان اور ہندوستان کے دو عظیم انسانوں کے گرد گھومتی ہے، ان دونوں نے اپنے عوام کو ایک الگ ملک دیا مگر دونوں کے مزاج و مذاق میں بعد المشرقین تھا۔ ان کرداروں کا نام محمد علی جناح اور موہن داس کرم چند گاندھی ہے۔ محمد علی جناح بیسویں صدی کے شروع میں سیاست میں ”ان“ ہو چکے تھے مگر گاندھی جی کا نام ہندوستانی سیاست میں پہلی دفعہ جنگ عظیم اول کے بعد سامنے آیا، پہلی جنگ عظیم کے بعد گاندھی جنا ح کے سب سے بڑے حریف کے طور پر سامنے آئے، گاندھی جی نے جنوبی افریقہ سے واپسی پر صرف دو سال میں ہندوستانی سیاست میں وہ ہلچل پید اکر دی تھی جو دوسرے لیڈر پچھلے دس سال میں نہیں کر پائے تھے۔گاندھی جی اگرچہ میدان سیاست کے شہسوار تھے لیکن ان کی نجی زندگی بہت سادہ اورفطرت کے قریب تھی، ان کا بچپن اور جوانی انتہائی سادگی میں گزرا تھا۔جنو بی افریقہ کے قیام کے دوران اکثر انہیں قبض اور سر درد رہتا تھا،انہوں نے کسی اخبار میں پڑھا اس کا علا ج یہ ہے کہ صبح کا ناشتہ ترک کر دیا جائے،چنانچہ گاندھی جی نے ناشتہ ترک کر دیا مگر کو ئی فرق نہ پڑا،ان کے ایک جرمن دوست نے بتا یا قبض کا واحد علا ج ”رجوع باالفطرت“ ہے،اس کا طریقہ یہ تھا کہ گاندھی جی ایک باریک کپڑے کی پٹی لے کر اس پر صاف مٹی کی تہہ جماتے اور اسے پانی میں تر کر کے پیٹ پر باندھ لیتے تھے،گاندھی جی نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ”تلاش“ میں لکھا ہے کہ یہ نسخہ تیر بہدف ثابت ہوا اور قبض سے ان کی جان چھو ٹ گئی۔ گاندھی جی کے مزاج میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ جب تک کسی تحریک یا کام میں خود کو اذیت میں نہ ڈالتے اس وقت تک انہیں اس کام میں مزہ نہیں آتا تھا اور وہ اس کام کو ادھورا سمجھتے تھے۔اس کے برعکس جناح ایک اصول پسند اور قانونی آدمی تھے اور ٹو دی پوائنٹ بات کر تے تھے،گاندھی جی اپنی سیاسی زندگی میں کئی بار جیل گئے،ماریں کھائیں،بھو ک ہڑتال کی لیکن مسٹر جناح ایک دفعہ بھی جیل نہیں گئے اور نہ کبھی بھوک ہڑ تال کی،جناح کی زندگی نزاکتوں سے پُرتھی،اچھا کھانا،اچھا پہننا اور اچھی جگہوں پر رہنا۔گاندھی جی روحانیات پر بھی یقین رکھتے تھے اور ان کا ہر کام وجدان اور روحانیت کے تابع ہوا کر تا تھا جبکہ جناح کے ہاں روحانیت اورجذباتیت کا کو ئی نام نہیں تھا۔جناح آخر تک اپنے بے پناہ عزم اور قوت استدلال کی بنیاد پر لڑتے رہے جبکہ گاندھی جی اپنے وجدان،جذب اور روحانیت کی روشنی میں اپنے پیرو کا روں کی راہنمائی کر تے رہے۔ایک دفعہ دونوں لیڈروں میں کسی مسئلے پر اختلا ف ہو گیا،جناح کا خیال تھا کہ گاندھی جی نے کسی معاملے میں وعدہ شکنی کی ہے لیکن گاندھی جی اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے،جناح کے سیکرٹری نے کہا ”سر گاندھی جی کا کہنا ہے انہوں نے وعدہ شکنی نہیں کی بلکہ ان کی روحانی قندیل نے انہیں اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا ہے“جناح اصولی آدمی تھے فورا غصے میں آ گئے اور چیخ کر بولے ”روحانی قندیل کی ایسی کی تیسی،یہ شخص ایمانداری سے کیوں نہیں تسلیم کر تا کہ اس سے غلطی ہو ئی ہے“
ساڑھے تین سال عمران خان صاحب کو بھگتنے کے بعد مجھے لگ رہا ہے کہ عمران خان اور ان کے سیاسی ورکربھی گاندھی جی کے جانشین ہیں اوریہ بھی گاندھی جی کی طرح اپنی روحانیت اوراپنے ”اخلاص“کی قسمیں کھا رہے ہیں،حالیہ پٹرولیم قیمتوں میں اضافے کے بعد ایک بار پھر گردا ن دہرائی جا رہی ہے کہ قیمتو ں میں ا ضافہ مجبوراً کیا ورنہ ہم مخلص ہیں اور عوام نے گھبرانا نہیں،ہم چور نہیں ہیں اور ملک میں تبدیلی آ رہی ہے، وزراء اور سیاسی ترجمانوں کی ٹیم روزانہ تبدیلی کے فوائد و ثمرات بیان کرنے نکلتی ہے مگر ناشکرے عوام کواحساس ہی نہیں ہو رہا۔عمران خان صاحب آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں آپ واقعی اس ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہیں اور آپ پو ری قوم کو اپنے اس ”اخلاص“ کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔قیمتیں زمین سے آسمان پر پہنچ گئیں مگر آپ اب بھی اپنے ”اخلا ص“ کی قسمیں کھا رہے ہیں، غریب خود کشیوں پر مجبور ہیں مگر آپ ابھی تک اپنے خلوص کے حصار میں گھرے ہو ئے ہیں،یہ ملک روزانہ بھوک اور غربت سے دس بیس لا شیں اٹھا رہا ہے مگر اس کے باوجود آپ اپنے خلوص کے قصیدے پڑھ رہے ہیں،مہنگا ئی کا سورج آسمانوں سے باتیں کر رہا ہے مگر اس کے باوجود آپ مخلص ہیں،مزدور کو روٹی نہیں مل رہی مگر آپ پھر بھی مخلص ہیں،دالوں اور سبزیوں کی قیمتوں کو پر لگ گئے مگر آپ مخلص ہیں،ڈالر ایک سوساٹھ روپے کی ریکارڈ حدوں کو چھو رہا ہے اور آپ اپنی کابینہ سمیت مل کر مخلصی کے گیت گارہے ہیں،روٹی دس سے پندرہ روپے تک بک رہی ہے مگر آ پ مخلص ہیں،شہروں میں گندگی کے ڈھیر ہیں مگر آپ مخلص ہیں،بیس کلوآٹے کا تھیلا غریب کی پہنچ سے باہر ہے مگر آپ کی مخلصی عروج پر ہے،آپ کی حکومت کی ناکامی اور بے بسی عروج پر ہے مگر آپ مخلص ہیں،پنجاب تباہ ہو رہا ہے مگر آپ کی عین والی مخلصی عروج پرہے۔ امریکہ ہمارے بیس سالہ کردار کو تسلیم نہیں کر رہا مگر آپ کے اخلاص کے چرچے ہیں،زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں مگر آپ مخلص ہیں،آپ ہیلی کاپٹر پر دفتر آتے جاتے ہیں اس کے باوجود آپ مخلص ہیں،آپ نے کرپشن کے نام پربائیس کروڑ عوام کو الو بنا رکھا ہے مگر آپ مخلص ہیں،آپ اپنے ہر ہر وعدے سے مکر گئے مگر آپ کا خلاص تا حال قائم و دائم ہے، عوام ابھی تک آپ کی پالیسیوں کو سمجھ نہیں پا ئے مگر پھر بھی آپ کا اخلاص شک و شبہ سے بالا ہے،آپ جن لوگوں کو کرپٹ کہہ کر اقتدار میں آئے تھے اب انہیں ساتھ ملا کر حکومت کر رہے ہیں مگر اس کے باوجود فرشتے آپ کے اخلاص کی قسمیں کھا رہے ہیں،آپ ابھی تک کرپشن کا ایک پیسہ تک واپس نہیں لا سکے مگر آپ مخلص ہیں اورآپ کے آنے سے لو د شیڈنگ خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے مگر اس کے باوجو د آپ کی مخلصی میں کو ئی شک وشبہ نہیں ہے۔
عمران خان صاحب!کا ش آپ اپنے اخلاص کا اندازہ کسی مزدور کا دل چیر کر دیکھتے، کسی مزدور کی آنکھ،کان،ہاتھ اور پا ؤں بن کر لگاتے۔آپ اس ماں سے اخلاص کا مفہوم پوچھتے جس نے غربت سے مجبور ہو کر بچوں کو مارا اور خود بھی مر گئی، آپ اپنے اخلاص کی قیمت شیخوپورہ کے اس باپ سے پوچھتے جس نے فاقوں سے مجبور چار بچوں کو نہر میں پھینک دیاتھا،آپ فٹ پاتھ پربیٹھے کسی دیہاڑی دار مزدور سے اپنے اخلاص کی قیمت پو چھتے،آپ اپنے اخلاص کی حقیقت تنخواہ دار طبقے سے پوچھتے کہ ان کے چولہے کیسے جلتے ہیں، آپ اپنے اخلاص کا حال بائیس کروڑ عوام سے سنتے جن کی زندگی ان پر تنگ ہو چکی ہے۔کا ش! آپ اپنے اخلاص کی حقیقت صبح سے شام پانچ ہزار روپے کی خاطر فیکٹریوں میں دھکے کھانے والی خواتین سے پو چھتے،آپ صبح سویرے شہر کے بڑے چوکوں چوراہوں میں جمع ہو نے والے مزدوروں سے پو چھتے، آپ چار کروڑ بے روز گار لوگوں سے پو چھتے اور آپ اپنے اخلاص کی حقیقت ان ڈھا ئی لاکھ نوجوانوں سے پوچھتے جو ہاتھ میں ڈگریاں لیے دس ہزار کی نوکری کی تلاش میں ہیں۔عمران خان صاحب کاش! آپ ایک لمحے کے لیے عوام بن جاتے، آپ اپنے اخلاص کی حقیقت کوعوام کی آنکھ،کان،ہاتھ اور پاؤں بن کر دیکھتے تو آپ کو نظر آ جاتا آپ اخلاص کے کس زینے پر کھڑے ہیں۔