اولاد اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہے۔جن کے پاس یہ نعمت موجود ہے۔ وہ اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ جواس سے محروم ہیں۔ وہ بھی اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہیں۔اس کے آگے گڑگڑاتے ہیں اور کہاں کہاں نہیں جاتے علاج کرانے تاکہ ان کے آنگن میں بھی پھول کھل سکیں۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 8 سے 12 فیصد شادی شدہ جوڑے اولاد کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ شرح 15 سے 22 فیصد ہے۔ کبھی یہ جوڑے پیروں کے پاس جاتے ہیں۔ حکیموں سے علاج کراتے ہیں۔ ٹوٹکے استعمال کرتے ہیں۔ جو بیماری انہیں نہیں بھی ہوتی نیم حکیم کے خود ساختہ علاج کرا کے وہ کسی نئی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔
میرے آج کے کالم کا مقصد ایک اہم ایشو پر توجہ مبذول کرانا ہے کہ اب بے اولاد جوڑوں کو جدید طریقہ علاج کے ذریعے اولاد جیسی نعمت حاصل کرنے کی خوشخبری کا جھانسا دے کر ان کو خوب لوٹا جارہا ہے۔ ان کو متوجہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ جدید طریقہ علاج سے بے اولادی کا سبب بننے والی پیچیدگیا ں دور ہوتی ہیں۔ اور بے اولاد جوڑے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس آڑ میں پاکستان میں بھی بے اولاد جوڑوں سے اندھا دھند پیسہ بٹورا جا رہا ہے۔ میں نے چند ماہ قبل ایک معروف نجی ہسپتال کا دورہ کیا۔جو دیکھنے میں بہت خوبصورت ہسپتال ہے اور جہاں دھوکا بھی خوبصورت انداز میں دیا جاتا ہے تاکہ شک نہ ہو۔اس ہسپتال میں ایلیٹ کلاس کے لوگ اپنا علاج کرانے آتے ہیں۔غریب اور مڈل کلاس کے لوگ تو اپنی جمع پونجی بھی اسی ہسپتال میں لٹادیتے ہیں۔جب میں اس ہسپتال کے لائف سیکشن میں گئی وہاں پر بہت سارے بے اولاد جوڑے آئے ہوئے تھے۔میں بھی وہاں جا کر بیٹھی۔بتاتی چلوں کہ وہاں پر لوگ ویٹنگ ایریا میں ایسے نہیں بیٹھتے ہیں بلکہ پہلے فون پر ٹائم لیتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ IVF کے ذریعے بچہ پیدا کرانا ہے یا کسی جوڑے کے ہاں بیٹیاں ہی ہوں اور وہ بیٹے کے خواہش مند ہوں تو ایسے جوڑے
بے بی بوائے کے لیے یہ پروسیس کراتے ہیں۔ تو اس سلسلے میں ساڑھے چار لاکھ روپے جمع کرانا ہونگے پھر علاج شروع ہو گا۔یہ علاج پیریڈز کے دوسرے دن سے شروع کیا جاتا ہے۔جب میں ویٹنگ روم میں بیٹھی تو دیکھا کہ میرے ساتھ تقریباً چالیس سال کی عمر کی خاتون بھی بیٹھی تھی جس کی آنکھوں میں بہت مایوسی تھی اور تھکن سے اس کا بُرا حال تھا۔ وہ مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔جب میں نے پوچھا کہاں سے آئی ہیں تو اس بتایاکہ میں راجن پور سے آئی ہوں۔ ایک دفعہ سارا علاج کرا چکی ہوں لیکن حمل نہیں ہوا اب ہمیں کہا گیا ہے کہ دوسری مرتبہ علاج ہو گا۔ میری شادی کو پندرہ سال ہو چکے ہیں لیکن بچے سے محروم ہوں۔ شادی کے بعد ابتدائی عرصے میں بیٹا ہوا تھا جو فوت ہو گیا۔ اب کسی نے بتایا ہے تو علاج کرا رہے ہیں مگر فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ میں نے سوچا اس خاتون نے معمولی کپڑے پہنے ہوئے تھے مگر آٹھ لاکھ روپے کا علاج کرانے آئے ہوئے ہیں میرا رب انکی مشکل آسان کرے۔ تھوڑی دیر بعد ایک متمول لڑکی سے بات کی آپ کیسے آئی ہیں۔ کہنے لگی پہلی بار حمل تین مہینے بعد ضائع ہو گیا اور میں دوبارہ آئی ہوئی ہوں۔ اس طرح لوگ یہاں دھڑا دھڑ پیسے جمع کرا رہے تھے۔
دنیا میں IVF (ان وٹرو فرٹیلائزیشن) ایک ایسا طریقہ علاج ہے۔جس کے تحت 1978 سے لے کر آج تک دنیا بھر میں بے شمار بے اولاد جوڑے اولاد کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔اس طریقہ علاج میں انڈوں کو انڈا دانی سے نکال کر لیبارٹری میں موجود ایک کلچر ڈش میں مرد کے جرثوموں کے ساتھ مکس کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں فرٹیلائزیشن کے عمل میں لایا جاتا ہے جسے In-Vitro کہا جاتا ہے۔ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ اس طریقہ علاج سے 1978 سے لے کر آج تک تقریباً چھ ملین بچے پیدا ہو چکے ہیں۔عام طور پر یہ طریقہ علاج اس صورت میں ہوتا ہے جب یہ علامات ہوں۔ بیضہ دانی کی نالیوں کا خراب ہونا،مردانہ بانچھ پن،عورت کے ماہانہ ایام، پیریڈز کا ڈسٹرب ہونا،عمر کا زیادہ ہونا اور تمام رپورٹس نارمل ہونے کے باوجود حمل کا نہ ٹھہرنا۔تب یہ علاج کرایا جاتاہے۔
ایک بار علاج کرانے کے ساڑھے چار لاکھ روپے ہیں جبکہ دوسری مرتبہ علاج کے ساڑھے تین لاکھ روپے یہاں مقرر کیے ہوئے ہیں۔جو ٹوٹل آٹھ لاکھ روپے بنتے ہیں۔اس طرح سے IVF جدید طریقہ علاج نہیں بلکہ نیا طریقہ واردات ہے۔ جس کے ذریعے بے اولاد جوڑوں کی جیبوں سے پیسے نکلوائے جاتے ہیں۔ اس پر حکومت کا چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے۔ بچہ پیدا ہونے کی خواہش رکھنے والوں سے جدید طریقہ علاج کے نام پر شیشے میں اتار کر کھلم کھلا ڈاکہ زنی کی جا رہی ہے۔ کئی لوگوں نے یہ شکایت کی ہے۔ ساری رپورٹ نارمل ہونے کے باوجود بھی سارا پروسس کرایا جاتا ہے اور ناکامی کے بعد بھی ڈھٹائی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ پھر سے علاج کرائیں۔ اس سارے پروسیس میں خاتون کو 14 دن مسلسل چالیس انجکشن لگتے ہیں جن میں cetrolide 5.2mg،فولی ٹروپ انجکشن 150 iv اور Ivf-m inj 150iv لگوانے باوجود بھی بہت سارے لوگوں کے جب دل ٹوٹتے ہیں خدارا اس جدید طریقہ علاج کے نام پر بے اولاد جوڑوں کی جیبوں پر ڈاکے نہ ڈالے جائیں۔پتہ نہیں یہ لوگ کس کس طرح سے پیسے جمع کر کے یہاں تک پہنچتے ہیں۔
آئی وی ایف طریقہ علاج جب چالیس سال سے زائد عرصہ پرانا ہے۔علاج شروع کرنے سے پہلے بے اولاد جوڑے کی رپورٹس دیکھ کر یہ اندازہ تو لگایا جاسکتا ہوگا کہ کس کیس میں فائدے کے امکانات ہیں۔باقی لوگوں کی امیدوں سے کھیل کر انہیں مایوس نہ کیا جائے نہ ہی جدید علاج کے نام پر ان سے پیسہ بٹور کر لوگوں کا مقروض یا کنگال کیا جائے۔ علاج کرانا سنت ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدید علاج کے نام پر بے اولادی کی مایوسی میں گھرے جوڑوں کی نفسیات کو ڈھال بناکر ان کے جذبات سے کھیلا جائے۔حکومت کو بھی اس حوالے سے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔