بھارت میں مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام،خوفناک منصوبے کے پیچھے مودی کی مسلم دشمنی پوشیدہ

11:39 PM, 26 Jan, 2022

ابولہاشم ربانی ۔۔۔نئی بات میگزین رپورٹ


بھارت تیزی سے اپنے انجام کی کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ انجام ہے بھارت کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا ، ٹوٹ جانا اور بکھرجانا ۔اس لئے کہ بھارت کی بنیاد ظلم وجبر اور انسانی لاشوں پر رکھی گئی ہے ۔ جس کی بنیاد ظلم وجبر پر ہواسے کبھی دوام اور استحکام نہیں ہوتا ہے ۔1947ء کے موقع پر جب بھارت معرض وجود میں آیا اس وقت بھی لاکھوں مسلمانوں کاخون بہایا گیا تھا۔پورا ہندوستان مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوگیا تھاجبکہ کنوئیں، دریا ، ندیاں نالے مسلمانوں کی لاشوں سے اٹ گئے تھے۔ستم یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جانے کاسلسلہ آج بھی جاری ہے۔بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ مظالم بڑھتے جارہے،اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں کے لئے بھارت کی سرزمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں کا اگر بس چلے تو وہ مسلمانوں کے نیچے سے زمین اوپر سے آسمان اور قدرت کی طرف سے میسر تازہ ہوابھی چھین لیں۔ بدقسمتی سے یہی انتہا پسند ہندو طبقہ اس وقت بھارت میں برسراقتدار ہے۔اس جنونی طبقہ کے پاگل کارکن اور رہنما کبھی مسلمان خواتین کی تذلیل کے لئے آن لائن فروخت کے اشتہار دیتے ہیں تو کبھی ان کے قتل عام کی اعلانیہ تجاویز پیش کرتے ہیں۔  
جیسا کہ کچھ دن قبل بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ میں ہندوئوں کے ایک مقدس شہر’’ ہری دوار‘‘ میں’’ دھرم سنسد ‘‘ کے نام پر ہونے والے چار روزہ جلسہ کے دوران انتہا پسند ہندوئوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت وانتقام کے شعلے اُگلے اور ان کے قتل عام کے اعلانیہ منصوبے بنائے گئے۔اہم بات یہ ہے کہ اس جلسے میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بعض ارکان نے بھی شرکت کی جس کا بدیہی مطلب یہ تھا کہ اس جلسہ کو مودی حکومت کی سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔جلسہ میں مسلمانوں کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی، نفرت وانتقام کے جو شعلے اگلے گئے اور جس طرح سے اعلانیہ قتل عام کے منصوبے بنائے گئے کم از کم آج کے مہذب دور میں اور دنیا کے کسی ملک میں ایسی گھنائونی مثال نہیں ملتی ہے۔
حدیہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت وانتقام کے شعلے اُگلنے میں انتہا پسند ہندو عورتیں بھی پیش پیش تھیں ۔ جس معاشرے میں عورتیں نفرت وانتقام میں اس حد تک اندھی ہو جائیں وہاں انصاف بھی اندھا ہوجاتا ہے۔مائیں معتدل سوچ وفکر اور انسانیت سے محبت رکھنے والے بچے جنم دینا چھوڑ دیتی ہیں اس وقت بھارت میں یہی کچھ ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے لئے خطرات بے حد بڑھ چکے ہیں ۔عقل کی اندھی ایک انتہاپسند ہندو خاتون رہنما نے کہا کہ چند سو ہندو اگر مذہب کے سپاہی بن کر بیس لاکھ مسلمانوں کو ہلاک کر دیں تو وہ فاتح بن کر اْبھریں گے۔ایسا کرنے سے ہندو مت کی اصل شکل ’’سناتن دھرم‘‘ کو  تحفظ فراہم کرنا یقینی ہوجائے گا۔ اس خاتون مقرر نے ہندوؤں کو مشتعل کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمانوں کو ہلاک کر کے جیل جانے سے مت گھبرائیں۔ اس لئے کہ مسلمانوں کا قتل پاپ نہیں بلکہ پاپ سے پوتر ہونے کاسبب ہے مسلمانوں کو قتل کرنا نیک کام ہے اور نیک کام کی خاطر جیل جانا سعادت ہے ۔اسی خاتون نے لوگوں کو تلقین کی کہ وہ ناتھو رام گوڈسے کو سراہا کریں، اس کے حالات زندگی پڑھیں،اس کے کارنامے یاد کریں اور اس کی راہ پر چلیں ۔یاد رہے کہ ناتھو رام گوڈسے وہی انتہاپسند ہندو تھا جس نے دسمبر 1948 ء میں موہن داس گاندھی کو قتل کیا تھا۔دوسرے لفظوں میں یہ عورت اپنی قوم سے کہہ رہی ہے کہ وہ ایک قاتل کے حالات زندگی پڑھیں، اس کی راہ پر چلیں اور جس ناتھو رام نے گاندھی کو قتل کیا ایسے ہی اب ہندو مسلمانوں کو قتل کریں ۔جلسے سے ایک جنونی ہندو پربھو ڈھنڈ گیری نے آگ کے شعلے اگلتے ہوئے کہا اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسلمانوں کو مارنے، قتل کرنے ، مسلمانوں کانام ونشان مٹانے  کے لیے تیار ہو جائیں۔مسلمانوں کا قتل ۔ایک عظیم کام ہے اس سے جہاں ہماری دھرتی پوتر ہوگی وہاں ہماری آتما بھی شانت ہوگی ۔دھرتی کو ناپاک مسلمانوں کے وجود سے پوتر کرنے اور آتما کوشانت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے سیاستدان ، حکمران ، فوج ، پولیس اور عام ہندو مسلوں کے خلاف اسی طرح ہتھیار بند ہوکر میدان عمل میں آجائیں اور مسلمانوں سے وہ سلوک کریں جو میانمار میں کیا گیا تھا۔ 
چند سال قبل میانمار میں مسلمانوں کا قتل عام بھلا کس انصاف پسند انسان کو بھول سکتا ہے۔ میانمار میں مسلمانوں سے جو بھیانک اور ظالمانہ سلوک کیا گیا وہ تاریخ انسانی کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کو کاٹ کرچوکوں،چوراہوں اور گلیوں میں اس طرح لٹکایا گیا جس طرح کہ قصاب جانوروں کو لٹکاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ میانمار کی کی اس وقت کی برسر اقتدار جماعت کو مودی کی اشیر باد حاصل تھی۔گویا میانمار کی حکومت نے مسلمانوں کا یہ قتل عام مودی حکومت کے تعاون سے کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہی انتہا پسند ہندو لیڈر پربھو ڈھنڈ گیری اکثر بی جے پی کے اہم لیڈروں کے ساتھ اکثر مختلف تقریبات میں دیکھا جاتا ہے۔جبکہ پربھوڈھنڈ گیری کی ایسی تصاویر بھی موجود ہیںجن  میں اتراکھنڈ کا وزیر اعلی پشکر دھامی جو کہ بی جے پی سے تعلق رکھتا ہے، اس کے پاؤں چُھوتے نظر آ تا ہے۔اس کا واضح مطلب ہے کہ پر بھوڈھنڈ گیری کی انتہا درجے کے مسلم دشمن ہفوات اورشیطانی  خواہشات کو حکمران جماعت کی اشیر باد حاصل ہے ۔ذرائع کے مطابق جب بعض میڈیا ہائوسز نے پرابودھا آنند گیری سے رابطہ کر کے اس کا موقف جاننے کی کوشش کی تو اس کا جواب تھا: ’میں نے جو کہا اس پر شرمندہ نہیں ہوں، میں پولیس سے نہیں ڈرتابلکہ اپنے بیان پر قائم ہوں۔ 
اسی طرح ایک مقرر یتی نارسنگھ آنند سرسوتی نے شعلے اگلتے ہوئے کہا نریندر مودی بھارت دیش کا پہلا پردھان منتری ہے جس نے ہماری آتمائوں کو شانت کیا ہے۔ مودی سے پہلے کے حکمران توبس فضول ہی تھے۔ کاش ہم مودی سے پہلے کے حکمرانوں کو قتل کرسکتے ۔ مطلب یہ ہے کہ مودی پہلا پردھان منتری ہے جس نے سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو قتل کرنے کاحق ادا کیا ہے اور اس قتل عام سے ہماری آتمائیں شانت ہوئی ہیں ۔بات یہ ہے بھارت کی موجودہ حکمران جماعت ہو یا سابقہ حکمران جماعت کانگریس دونوں ہی مسلمانوں کی دشمن ہیں ۔ بھارت میں انتہا پسندی کی موجودہ لہر کانگریس کی مہربانیوں کا فیض اور ثمر ہے۔ناتھو رام گاڈسے کی ذریت کو قومی دھارے میں لانے والی کانگریس ہی تھی بعد ازاں اسی شیطانی ذریت سے بی جے پی نے جنم لیا۔مزید یہ کہ کانگریس ہو یا بی جے پی دونوں کی مسلم دشمنی کی کوئی فرق نہیں فرق اگر ہے تو طریقہ واردات کا ہے۔ ٭٭٭
کانگریس کی بغل میں چُھری اور منہ میں رام رام ہوتا ہے جبکہ بی جے پی کی بغل میں بھی چُھری ہے اور منہ میں بھی چھری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کانگریس برسر اقتدار تھی تو وہ بھی بے دریغ مسلمانوں کا قتل عام کرتی رہی ہے اب بی جے پی درحقیقت کانگریس کی ادھورا شیطانی کام پورا کررہی ہے۔
ہری داور کے اس جلسے، وہاں خاتون مقرر اور دوسری تقاریر کے حوالے سے مودی حکومت کی جانب سے اگر چہ کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔تاہم اس جلسہ کی ویڈیو جب وائرل ہوئی اور عوام کی طرف سے اس کے خلاف شدید ردعمل آیا تو پولیس نے صرف ایک شخص جتیندر نارائن تیاگی اور دیگر نامعلوم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا دعوی کیا۔ واضح رہے کہ جتیندر نارائن تیاگی کا پہلا نام وسیم رضوی تھا جو کہ بدقسمتی سے کچھ عرصہ قبل اسلام چھوڑ کر ہندومذہب قبول کرچکا ہے ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تیاگی اور نامعلوم دیگر افراد کے خلاف مذہبی گروہوں کے درمیان نفرت پھیلانے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تاہم سوشل میڈیا صارفین نے ویڈیوز میں بہت سے مقررین کی شناخت کی ہے جو اہم مذہبی رہنما ہیں  اکثر حکمران جماعت بی جے پی کے وزراء اور اراکین کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ان حقائق سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ بھارت مسلمانوں کا قاتل عام پہلے بھی سرکار کی سرپرستی میں کیاجاتا تھا اور اب بھی سرکار کی سرپرستی میں قتل عام جاری ہے اور مزید قتل عام کے اعلانیہ منصوبے بن رہے ہیں ۔ان حالات میں ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے ، اقوام متحدہ ، امریکہ اور یورپ مسلمانوں کا قتل عام رکوائیں  بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دیں۔  
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں