یقین کیجئے کہ مجھے نواز شریف کے دور کے مقابلے میں کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے تئیس درجے بڑھنے پر ہرگز کوئی حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس دور میں کرپشن کے وہ ،وہ طریقے ایجاد کئے گئے ہیں جن کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ میں محکمہ زراعت کے واٹرمینجمنٹ پراجیکٹ کے برطرف کر دئیے جانے والے سینکڑوں ملازمین کے درمیان موجود تھا اور آپ جس وقت یہ تحریر پڑھ رہے انہیں سول سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دئیے ہوئے نواں دن گزر رہا ہے۔ ان نو دنوں سے چھ دن مسلسل ہلکی اور تیز بارش ہوتی رہی ہے مگر ان ملازمین کے پاس چھت کے طور پرصرف میٹرو کا پل موجود ہے یا وہ کیمپ جسے وہ بھوک ہڑتالی کیمپ کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔اس پر بھی پولیس کے جوانوں نے اوپر کے اشاروں پر دو روز قبل جب شدید بارش ہو رہی تھی تو انتہائی گھٹیا حرکت کی۔ پولیس کے اہلکاروں نے اس کیمپ کی رسیاں کاٹ دیں جس سے کیمپ زمین بوس ہو گیا۔ اس کے اندر پانی داخل ہو گیا اور اس دوران شدید سردی کی بارش بھی ہوتی رہی۔ مجھے کبھی کبھی ان پولیس والوں پر بھی رحم آتا ہے جو اپنے افسروں کے اشاروں پراپنے جیسے غریب احتجاج کرنے والوں پر ظلم کرتے ہیں۔ انہیں اپنے دماغ اور دل کے استعمال کی اجازت نہیں ہوتی۔ وہ صرف ہاتھ استعمال کرسکتے ہیں جن میں ڈنڈے، آنسو گیس کے شیل یا بندوقیں ہوتی ہیں۔ جب ہم دل اوردماغ استعمال نہیں کرتے توہم کتوں کی طرح ہوتے ہیں، وہ کتے جو مالک کے اشارے پر شکار پر پل پڑتے ہیں، اسے چیر پھاڑ دیتے ہیں۔
آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں اس احتجاج کو ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے ساتھ کیوںجوڑ رہا ہوں۔ مجھے اس احتجاج کے بجائے مثال دینی چاہئے کہ ایک طویل عرصے کے بعد اطلاعات ہیں کہ ایوان وزیراعظم اور ایوان وزیراعلیٰ میں مافیاز کے ساتھ سودے بازی ہور ہی ہے۔شہباز شریف اور پرویز الہٰی سے بھی بہت پہلے مخلوط حکومت کے ایک وزیراعلیٰ ہوا کرتے تھے جن کے بارے مشہور تھا کہ وہ رشوت اور کرپشن کی رقم بھی گن کروصول کرتے ہیں اور بعض اوقات وہ دیر تک انگلیوں کوتھوک لگا کے نوٹ گنتے رہتے تھے اور اگر رشوت کی رقم پوری ہوتی تھی تو حکم نامے پر دستخط ہوتے تھے ۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اب صورتحال اس سے بھی بدتر ہے جس میں یہ الزام لگے ہیں کہ سرکاری پوسٹوں کی بولیاں لگتی ہیں۔ میں اس سے پہلے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کے ایک احتجاج میں بھی موجود تھا اور ان کا مسئلہ بھی یہی تھا کہ برس با برس کی خدمات کے بعد انہیں نوکری سے نکال دیا گیا تھا جبکہ جن خدمات کے لئے ان کا پراجیکٹ تھا اس کی تنظیم نو کی جا رہی تھی۔ اسی صورتحال کا سامنا واٹر مینجمنٹ کے ڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ ملازمین کے ساتھ ہے۔ان میں سے بیشتر وہ ہیں جن کو ملازمت کرتے ہوئے پندرہ سے سترہ برس گزر چکے،بہت سارے گریڈ سترہ تک کے ملازمین ہیں جنہیں پراجیکٹ ختم کرنے کا کہہ کر اچانک گھر بھیج دیا گیا ہے۔ اب یہاں ایک ٹیکنیکل سوال ہے کہ جب ایک سرکار نے پراجیکٹ کے نام پر نوکریاں دی ہیں تو منطقی ہے کہ وہ پراجیکٹ ختم ہوگاتو نوکریاں بھی ختم ہوجائیں اور یہاں ہی وہ نیت اور عمل کی بدعنوانی ہے جس کی میں نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔ ایشو یہ ہے کہ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز ہوں یا واٹرمینجمنٹ کا شعبہ، ان کی ضرورت ختم نہیں ہوئی کہ کیا پاکستان آبادی کنٹرول کر چکا اورکیا پاکستان میں پانی کی کمی ختم ہوچکی، ان دونوں سوالوں کا جواب ہے کہ نہیں تو اس پر سوال ہے کہ پھر یہ پراجیکٹ کیسے ختم ہوگئے اور ان کے برس ہا برس سے تجربہ کار ملازم کیسے نوکری سے نکال دئیے گئے۔ واٹر مینجمنٹ کے ملازمین کے بارے عالمی ادارے کہہ رہے ہیں انہوں نے اتنا پانی بچایا جتنا ایک ڈیم بنا کے محفوظ کیا جاسکتا اور بچایا جا سکتا تھا۔
یہاں ہمیں فنکاروں کاسامنا ہے جنہیں آپ لہریں گننے پر بھی لگا دیں گے تو وہاں سے بھی کمائی کرلیں گے۔ یہ ضرورت ہونے کے باوجود اس لئے ختم کئے جاتے ہیں تاکہ نئی بھرتی کی جائے۔ یہ عین ممکن ہے کہ یہ بہت سارے پرانے ملازمین کو ہی دوبارہ بھرتی کر لیں مگراس کے لئے دو کام ضروری ہوں گے کہ آپ کو سرکاری پارٹی کے کسی بندے سے سفارش کروانا ہوگی اور ایک ایک نوکری کے لئے کئی کئی لاکھ روپے کی رشوت دینی ہوگی جیسے واٹرمینجمنٹ کے پراجیکٹ کا فیز ٹو کا پلان آچکا ہے۔ لہٰذا یہ بات لاجیکل ہے کہ جب تک آپ پرانے بندوں کو نہیں نکالیں گے نئی بھرتی نہیں کر سکیں گے۔ مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ ان نو دنوں میں وزیر زراعت حسین جہانیاں گردیزی نے ان سے ملازمین سے بات تک نہیں کی حالانکہ یہ وہی وزیر صاحب ہیں جو دسمبر میں ہونے والے احتجاج پر مظاہرین سے کہہ رہے تھے کہ آپ کی بھی داڑھی ہے اور میری بھی داڑھی ہے، اس داڑھی کے تعلق سے میں آپ کا کام کروں گامگر پھر علم ہوا کہ داڑھی کا یہ استعمال بھی سیاسی تھا، محض دھوکا دہی تھا۔مجھے برطرف سرکاری ملازمین بتا رہے تھے کہ وزیراعلی پنجاب کے والد جب وہ حیات تھے تو انہوں نے ان سے بھی اپنی مستقلی کے لئے رابطہ کیا تھا کیونکہ پنجاب کے علاوہ تینوں صوبے اس شعبے کے ملازمین کو پکا کر چکے ہیں۔ ملازمین کے بقول وزیراعلیٰ کے والد محترم نے انہیں ہدایت بلکہ وصیت کی تھی کہ ان ملازمین نے بہت کام کیا ہے، ان کا کام ضرور کرنا ۔ ملازمین نے وزیراعلیٰ کے بھائیوں اور ہمشیرہ سے بھی درخواست کی مگر وہ بھی نہیں سنی گئی۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ان ملازمین کو پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ سمیت مختلف متعلقہ سرکاری شعبوں نے سرکاری ملازمت میں لینے کی سفارش کر رکھی ہے مگر یہ کام وزیراعلیٰ اور کابینہ نے کرنا ہے جس کے اجلاس اور اس کے ایجنڈے کا کسی کو دور دور تک علم نہیں ہے۔
میں ملازمین سے کہتا ہوں کہ وہ اس سرکاری ملازمت کو دفع کریں، کوئی اور کام کرلیں تو وہ مجھے اپنی سفید داڑھیاں دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سترہ ، سترہ برس اس محکمے کے لئے کام کرنے کے بعد وہ اوور ایج ہوچکے، اب وہ اور کیا کریں، اب وہ اور کہاں جائیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ یہاں سردی بہت ہے، بارش بہت ہے، جاؤ اپنے گھر چلے جاو تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں والدین کی دوا کے لئے پیسے نہیں، بچوں کے کھانے کے لئے پیسے نہیں، ہم نے ان کے سامنے جاکر مجبوری اور بے بسی میں جو خود کشی کرنی ہے تو ہم یہاں ہی سردی اور بارش میں کیوں نہ بیٹھے بیٹھے مرجائیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس وزیراعلیٰ اور وزیر زراعت کے گھر میں کون سے فاقے ہوں گے کہ وہ ان کا دکھ ، درد اور اذیت محسوس کر سکیں۔ انہیں کیا پتا کہ اس شدید سردی میں بارش کے دوران رات سڑک پر گزارنا کتنا مشکل ہے کیونکہ ان کے گھروں میں سنٹرل ہیٹنگ ہوگی، وہ ڈرائی فروٹ سے انجوائے کر رہے ہوں گے۔ وہ امید سے ہوں گے کہ پراجیکٹ ٹو کی اگر پندرہ سو ملازمتیں بھی دی جائیں اور ایک ملازمت صرف پانچ لاکھ میں بھی بیچی جائے تویہ پورے ستر ،اسی کروڑ روپے بنتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ مہنگائی کے اس دور میں یہ کوئی بڑی دیہاڑی نہیں ہے مگر اربوں اور کھربوں انہی سو، سو کروڑ روپوں سے ہی بنیں گے۔ اب وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے مگر آپ کو بھی ماننا ہوگا کہ جب آپ سابق حکومت کے مقابلے میں کرپشن انڈیکس تئیس، چوبیس درجے اوپر لے جاتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔میں آپ کی محنت اور آپ کے ٹیلنٹ کی داد دیتا ہوں، آپ نے کمائی کے وہ وہ طریقے ایجاد کئے ہیں جو اس سے پہلے کسی کو معلوم ہی نہیں تھے۔