اتوار کو آپ کا وزیرِ اعظم آپ کے ساتھ میں عوام کے سوالوں کا براہ راست جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کئی ایسی باتیں کی ہیں جن سے ایسی افواہوں کو تقویت ملی ہے کہ اپوزیشن کی بے دلی سے چلائی جانے والی تبدیلی کی تحریک اور عدمِ اعتماد جیسی آئینی راہ پر نہ چلنے کے باوجود کہیں تبدیلی کے نُکتے پر کام ہو رہا ہے اسی لیے وزیرِ اعظم کو کہنا پڑا ہے کہ اقتدار سے نکلا تو زیادہ خطرناک ہوں گاحالانکہ اپوزیشن کی طرف سے کسی بڑی تحریک کی تیاری پر کام نہیں ہو رہا نہ ہی اِن ہائوس تبدیلی میں سنجیدہ ہے پھربھی وزیرِ اعظم کن اندیشوں و خدشات سے پریشان ہیں کہ اُنھیں اقتدار سے نکالنے پر خطرناک ہونے کی دھمکی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ظاہر ہے اُن کے پاس ایسی کچھ اطلاعات ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے اقتدار کو خطرہ محسوس کر رہے ہیں وگرنہ ایسا دھمکی آمیز لہجہ کیوں اختیار کرتے؟البتہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اقتدار سے نکالنے کا طریقہ کار کیا ہوگا اِس کی کسی کوسمجھ نہیں آرہی کیونکہ اپوزیشن تمام ترکوشش کے باوجود حکومت تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اب بھی زوردار تحریک کی بجائے محض وقت گزاررہی ہے اور عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بھی دور دور تک آثار نہیں آجا کر ایک ہی طریقہ سمجھ میں آتا ہے کہ عمران خان خود اسمبلیاں توڑنے کا انتہائی فیصلہ کرگزریں بظاہر تبدیلی کاکوئی راستہ سمجھ میں نہیں آتا۔
الیکشن کمیشن میں بیرونی عطیات کے حوالے سے جاری کیس جوں جوں انجام کی طرف بڑھ رہا ہے قانونی موشگافیوں سے آشنا ماہرین کہتے ہیں کہ دانستہ طور پر معلومات چھپانے اور غیر قانونی ذرائع سے عطیات لینے کی بنا پر عمران خان کی نااہلی سمیت پوری تحریکِ انصاف کے کالعدم ہونے کا خطرہ ہے حالانکہ حکمران جماعت نے انکوائری کمیٹی کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے کچھ نکات الیکشن کمیشن سے صیغہ راز میں رکھنے کی التجا کی تھی جسے الیکشن کمیشن کی طرف سے مسترد کر دیا گیا اسی لیے حکومتی حلقوں کو خدشہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی دلیری کے پسِ پردہ کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ انصاف ہونے کی صورت میںالیکشن کمیشن کا ایک فیصلہ ہی نہ صرف پوری حکومت کو رخصت کر نے کے ساتھ حکمران جماعت کا نام بھی سیاسی افق سے مٹ سکتا ہے مگر اقتدار سے نکلنے پر خطرناک ہونے کی دھمکی الیکشن کمیشن کے حوالے سے دیکھنا قطعی غلط ہے ایسا لگتا ہے عمران خان کو دیگر اطراف سے بھی خطرات محسوس ہورہے ہیں اسی لیے وہ خطرناک ہونے کا انتباہ دینے کی
ضرورت محسوس کرنے لگے ہیںمگر انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے دھمکانے یا الزام تراشی کرنے سے کسی کو اچھا پیغام نہیں ملتا بلکہ لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملتا ہے،
عمران خان کو الیکشن کمیشن کے علاوہ جو خطرہ ہے وہ نواز شریف کی ملک میںآمد اور متوقع تحریک ہے اسی لیے پیش بندی کے طور پر کبھی میڈیکل رپورٹس چیک کرانے کی باتیں کی جاتی ہیں اور کبھی شہباز شریف کو دھمکایا جاتا ہے تاکہ وہ خاموش ر ہیں حالانکہ فوری طور پر نواز شریف کی آمد کا مکان کم ہے البتہ برطانیہ مزید رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور پاسپورٹ کی تجدید بھی نہیں ہوتی تو برطانیہ سے نکلنے کے سوا چارہ نہیں اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تواُن کی پاکستان واپس آنے کے سوا کہیں جانے کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ایسا ہونے کی صورت میں عوام کے نکلنے کا امکان موجود ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتی سطح پر خوف محسوس کیا جارہا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ ایک تو نواز شریف وطن نہ آئیں دوم شہباز شریف کسی قسم کی تحریک چلانے سے باز رہیں لیکن ایسا کہنے کی بجائے بلیک میلنگ کے حالات بناکر کام نکالنے کی کوشش ہے مگر مشیرِ احتساب شہزاد اکبر کے مستعفی ہونے سے اب بلیک میلنگ کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے اسی لے اقتدار سے نکلنے پر خطرناک ہونے کا دعویٰ کرنے کی نوبت آئی ہے جو حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فضول مشق لگتی ہے۔
خطرناک ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام آباد کے دھرنے کے آخری ایام میں جب طاہر القادری الگ ہوئے تو لوگوں کی حاضری نہ ہونے کے برابررہ گئی تھی اور دھرناصرف شام کو چند لوگوں کی طرف سے عمران خان کی تقریر سُننے تک محدود رہ گیاتھا شام کی تقریر سُننے بھی اِ س لیے لوگ آجاتے تھے کیونکہ ناچ گانے جیسے تفریح کے مواقع ملتے تھے پھر اے پی ایس کا واقعہ ہونے سے عمران خان کو باعزت نکلنے کی سہولت ملی اب جب اقتدار سے نکل کر خطرناک ہونے کی دھمکی دی جاتی ہے تو اِس دھمکی پر کوئی بھی فہمیدہ شخص یقین کرنے کو اِس لیے تیار نہیں کہ اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے جو کوئی تیر نہیں چلا سکے اقتدار میں ہوکر وعدے پورے نہیں کر سکے اب اقتدار سے نکل کر کونسا معرکہ سر کرسکتے ہیں لیکن دھمکیاں دینے سے ایک بات بہرحال طے ہو گئی ہے کہ حکومت شدید دبائو میں ہے اسی لیے بوکھلاہٹ میں اُلٹے سیدھے بیان دیے جا رہے ہیں لیکن بڑھکیں لگاتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنھیں پیغام دیا جارہا ہے اُنھیں ایسا نہ بھی پیغام دیا جائے تو وہ نجی محفلوں میں ہونے والی باتوں سے بھی بہت کچھ سمجھ جاتے ہیں ۔
بات یہ ہے کہ حکمران اپنے دعوئوں کو پورا کرنے میں ہنوز ناکام ہیں احتساب کا عمل مخالف سیاستدانوں کو لگام دینے تک محدود ہو چکا ہے حالانکہ اگر مقدمات بنانے سے قبل تحقیقات پر دھیان دیا جاتا اور گرفتاری سے قبل شواہد اکٹھے کر لیے جاتے تو احتساب کا عمل یوں بے توقیر نہ ہوتا اور نہ ہی اپوزیشن رہنمائوں کو نیب پر تنقید کے نشتر چلانے کے مواقع ملتے اب عمران خان چاہے اقتدار سے نکل کر خطرناک ہونے کے لاکھ دعوے کریں مگر جب ایوان میں بولنے کا موقعہ نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ حکمران ناکام ہو چکے ہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں جو حکومت میں ہوتے ہوئے تمام تر اختیارات کے باوجود ناکام رہیں وہ اقتدار سے نکل کر کیاکسی قسم کی خطرناکی دکھا سکتے ہیں؟ بظاہر یہ کوئی اچھی مثال نہیں مگراِس سے حالات کی بہترین تصویر کشی ہو سکتی ہے ایک سانپ میں اگر زہر نہ رہے تو محض کیچوا رہ جاتا ہے زہر سے محرومی کے بعد وہ کسی کو نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا آپ کیا فرماتے ہیں بیچ اِس مسئلہ کے ؟۔