کشمیر کے ضلع باغ سے سیّد غلام رسول گردیزی کہ دیرینہ قاری ہیں، جستجو رکھنے والے نوجوان ہیں، ایک سوال ارسال کیا، سوال گو فلسفیانہ ہے لیکن دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں کہ جس طرح اندھیرا روشنی کی عدم موجودگی کا نام ہے ، اور برودت کا وجود حرارت کی غیرموجودگی کا ثبوت ہے تو کیا اس طرح شر بھی خیر کی عدم موجودگی کا نام ہے، کیا برائی بھی نیکی کے نہ ہونے کو کہیں گے اور کیا ضلالت بھی ہدایت کی عدم موجودگی کا نام ہوگا؟
اس گنجلک سوال کا جواب اگرچہ فلسفیانہ ہی ہے لیکن یہ بحث از خود فکر کے بہت سے طبق روشن کرتی ہے۔ بات اتنی سادہ نہیں جتنی اس بیان نما سوال میں دکھائی دیتی ہے۔ دراصل عالمِ اسباب دو جمع دو چار کے فارمولے پر چلتا ہے، یعنی اگر کوئی چیز موجود ہے تو وہ عدم موجود نہیں ہو سکتی ہے اور اگر کوئی چیز وقت کے کسی خاص حصے میں عدم موجود ہے تو وقت کے اسی حصے میں اس کی موجودگی ثابت نہیں ہوتی، مراد یہ ہے کہ عالمِ اسباب میں اگر کوئی چیز ہے تو اس کا غیر، غیرموجود ہے اور غیر کی موجودگی اس کا عین از خود ثابت کر دیتی ہے۔ عالمِ اسباب کو عالمِ امکان کہنا چاہیے، آج کل جدید کوانٹم فزکس بھی موجودگی کو محض موجودگی کے امکان کی حد تک مانتی ہے۔ بہرطور یہاں یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ عالمِ اسباب کے کلیات عالمِ امر سے جدا ہیں۔ عالمِ غیب کے حقائق کی تفہیم و تشریح ہم عالمِ شہود میں رائج کلیات کی مدد سے نہیں کر سکتے۔ یہاں رہتے ہوئے وہاں کی بات سمجھانے میں ہم تمثیل تو بیان کر سکتے ہیں لیکن حقیقت کی تمثیل عین حقیقت نہیں ہوتی۔ اکثر اوقات سننے والا تمثیل پر توجہ مرکوز کر لیتا ہے اور حقیقت اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے، اور یوں اْمّت روایات میں اور حقیقت خرافات میں کھو جاتی ہے۔ عالمِ اسباب اس لحاظ سے نامکمل ہے کہ یہاں سے اٹھائی گئی مثال من و عن حقیقت پر صآدق نہیں آتی۔ دلیل کی حیثیت تمثیل سے زیادہ نہیں، اور تمثیل ہمیشہ ناکافی ہوتی ہے۔ عوام الناس تمثیل کو محض تمثیل کی حد تک نہیں لیتے بلکہ وہ تمثیل کو معیار بنا کر حقیقت کی پرکھ کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً اگر زید کی بہادری سمجھانے کے لیے زید کو شیر کہہ دیا جائے تو طفلانہ فہم زید کے وجود پر دم اور پنجے بھی تلاش کرنے لگے گی۔ الہامی کلام کی ذہنی تفسیر میں یہی دقت رونما ہوتی ہے۔ الہام امر سے نازل ہوتا ہیاور تفیسر جس ذہن سے جنم لیتی ہے وہ ذہن اسباب وعلل کی پیداوار ہے۔ اس طرح واضح حقیقت بھی تشریحات کے گورکھ دھندے میں کھو جاتی ہے۔
مذکورہ سوال جس فلسفے پر کھڑا ہے، اس سوال کا جواب اسی محل paradigmمیں دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم اس فلسفے سے گویا اتفاق کر رہے ہیں۔ اس سوال کو منطقی طور پر آگے بڑھایا جائے تو ہم کچھ اس قسم کے نتائج پر پہنچیں گے کہ کفر ایمان کی غیر موجودگی کا نام ہے، برائی نیکی نہ کرنے کا نام ہے، ظلمت گویا نور کا عدم ہے اور موت کو زندگی کی غیرموجودگی کا نام دینا پڑے گا۔ دراصل جس طرح زندگی اور موت الگ الگ حقیقتیں ہیں، اسی طرح خیر اور شر بھی الگ الگ وجود رکھتے ہیں۔اگر موت کو محض زندگی کی عدم موجودگی قرار دے دیا جائے تو موت کی معنویت ختم ہو جاتی ہے، اور جب موت کی معنویت ختم ہوجائے گی تو بعد از موت حقائق کا از خود انکار ہو جائے گا۔ ذاتِ باری نے موت اور حیات کو تخلیق کیا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ مبارک ہے وہ ذآت جس کے ہاتھ میں (تمام وجود کی) مملکت ہے، اور جو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، وہی ذات ہے جس نے موت اور حیات کو خلق کیا تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال بجا لاتا ہے۔ یہاں موت کا بیان پہلے ہے اور زندگی کا بعد میں۔ گویا موت اور زندگی دونوں تخلیقی حقائق ہیں۔ جس طرح زندگی کا ایک منظر ہے، موت کا بھی ایک منظر ہے۔ موت صرف زندگی کا نہ ہونا نہیں۔ اسی طرح شر صرف خیر کی عدم موجودگی کا نام نہیں بلکہ شر کو تخلیق کیا گیا ہے، ایمان کے تقاضوں میں تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے "والقدرِ خیرہ? و شرّہ? من اللہ تعالی"، اس طرح معوّوذتین میں "من شرّ ما خلق" بھی ہم پڑھتے ہیں، یعنی ہم اس شر سے پناہ طلب کرتے ہیں جو باری تعالیٰ نے تخلیق کیا ہے۔ اس خیال تک اس فلسفی کی رسائی نہیں جو شر کو محض خیر کے عدم موجودگی اور موت کو زندگی کے غیرموجودگی سمجھ رہا ہے۔
ایمان، محبت اور معجزے کی مادی توجیہ ممکن نہیں ہوا کرتی۔ اگر ظاہری عدسوں سے اس عالم کو دیکھا جائے تو یہاں مذہب کسی معاشی اور معاشرتی مجبوری کا نام نکلے گا۔ اگر باطنی نگاہ سے دیکھا جائے تو تمثیل کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ سائینس سے حقائق کو آنکنے والے باطنی حقائق تک رسائی نہیں پاتے۔ ظاہر پرستوں کا واحد طریق تمثیلات اور توجیہات کا استعمال ہے، یہ طریقہ وقتی طور پر ذہن کو لبھاتا ضرور ہے لیکن یقین کے باب میں دیرپا ثابت نہیں ہوتا۔ مذکورہ سوال میں درپردہ یہی فلسفہ کارفرما ہے۔
نیکی کا اپنا وجود ہے اور برائی الگ وجود رکھتی ہے۔ اگر ایک شخص نیکی نہیں کر رہا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ برائی میں مشغول ہے۔ نیکی میں کوتاہی غفلت کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے، جبکہ برائی بری نیت کے ساتھ کیا گیا ایسا عمل ہے جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ بْری نیت کے ساتھ نیک عمل کرنا منافقت کہلائے گا۔ مثلاً دکھاوے کی نیت سے نماز صدقہ اور خیرات دیکھنے میں نیک اعمال ہیں لیکن اس نیت کے ساتھ کرنے والا منافق کہلائے گا۔
ہدایت کی عدم موجودگی کو ضلالت نہیں کہیں گے۔ ہدایت ہادی سے منسوب ہے اور ضلالت کا انتساب "المضل" کی طرف ہے۔ پْرلطف منظر یہ ہے کہ دونوں ہی اسمائے حسنیٰ ہیں۔ دونوں اسماء اپنے اپنے طالبوں کی ربوبیت پر مامور ہیں۔ اپنے ہادی سے غفلت کا لازمی نتیجہ یہ نہیں کہ طالب ہدایت سے محروم رہ گیا ہے۔ ہادی اس کا منتظر ہے، وہ جب چاہے توبہ کرلے اور ہادی کی آغوشِ رحمت میں جگہ پالے۔ سورۃ آلِ عمران میں آیت الکرسی کے بعد ایک آیت ہے جس کا ترجمہ و مفہوم یہ ہے کہ اللہ مومنوں کا ولی ہے، وہ انہیں ظلمات سے نکال کر نور میں داخل کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عین ممکن ہے ایک بندہ، بندئہ مومن ہو لیکن وہ ابھی تک ظلمات کی قید میں ہو، ابھی اس کی رسائی نور کے عالم تک ہونا باقی ہے، اور یہ رسائی اللہ کی صفتِ ولایت کی ہمراہی میں ہوتی ہے۔ یہاں ظلمت، ظلمتِ نفس بھی ہو سکتا ہے۔ درحقیقت معرفت ایک نور ہے… نورِ الٰہی ہے۔ عارف لوگ کہتے ہیں کہ معرفت دراصل معرفتِ نورِ محمدیؐ ہے۔ جس قدر ہم اپنے ظلمتِ نفس سے نکلیں گے ، اسی قدر نورِ محمدیؐ کی معرفت حاصل کر لیں گے۔ معرفت کوئی مافوق الفطرت مظہر نہیں۔ ایمان معرفت ہی کی ایک خفیف قسم ہے۔ جسے ایمان کی دولت سے نوازا جاتا ہے اس کے دل میں نورِ معرفت کی کرن ڈالی جاتی ہے۔ ایمان دلیل کا نہیں بلکہ دل کا سودا ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ میں خدا کو اس لیے مانتا ہوں کہ مجھے خدا کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ملی۔ یہ بیان زعمِ عقل کی بازگشت ہے۔ اگر ایمان لانے کے لیے عالمِ ظاہر میں موجود اسباب و دلائل کافی ہوتے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی بعثت گویا عبث قرار پاتی ہے۔ جس ذہین و فطین آدمی کا جب دل چاہتا و اسباب و علل کی کڑیاں جوڑتا ہوا دلائل کی سیڑھی چڑھتا ہوا خدا تک پہنچ جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ وہ خدا جو عقل و دلائل سے آنک لیا جائے ، وہ کیسا خدا ہوگا؟ خدا تو وہ ہے جو اپنے طالب کو پہلے قدم پر ایسی حیرت میں ڈال دیتا ہے کو عقل کے دستِ اختیار سے دلائل کا کیلکولیٹر چھوٹ جاتا ہے۔ حیرت وہ مقام ہے جہاں عقل سوچنا بھول جاتی ہے۔ عقل و دلیل کے دایرے میں مخلوق آ سکتی ہے، خالق نہیں۔ اللہ مجموعہ صفات نہیں بلکہ ایک ذات ہے۔ ذآت کی خبر ذات سے میسر آتی ہے۔ صادق الوعد الامین کی ذاتِ اقدس ہی غیب میں مستور ذاتِ حق کو عالمِ شہود میں مشہود کرتی ہے۔