یہ دوہزارسترہ کی بات ہے۔ایک شادی تقریب میں اتفاقاًان سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے مرحوم والد تین یاچاربارایم این اے رہے۔یہ خودبھی سابق ایم این اے کااعزازاپنے نام کرچکے تھے۔1997میں والدکی وفات کے بعد مسلم لیگ ن سے وابستگی اورتعلق کی وجہ سے وہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ اورنشان پر ہی ضمنی الیکشن لڑکر ایم این اے منتخب ہوئے۔1999میں جب اچانک مسلم لیگ ن آسمان سے زمین پرآن گری اورمیاں نوازشریف جلاوطن ہوئے توانہوں نے بھی گھرمیں بیٹھنے کی بجائے مسلم لیگ ق کوجوائن کیااورپھر وہ ق لیگ کے ٹکٹ پردوبارہ قومی اسمبلی کے ممبرمنتخب ہوئے۔اس دن باتوں باتوں یاملاقات میں میاں نوازشریف ،پرویزمشرف ،مولانافضل الرحمن اور چوہدری شجاعت سمیت دیگرقومی رہنمائوں اور لیڈروں کے بارے میں تفصیلی بحث مباحثے اور گفتگو کے دوران میں نے اچانک ان سے موجودہ وزیراعظم عمران خان اوران کی سیاست کے حوالے سے کچھ پوچھاتوعمران خان کانام سنتے ہی اس نے ایک قہقہہ لگایااورپھراپنے سرکوہلاتے ہوئے بڑے مدبرانہ اورمفسرانہ لب ولہجے میں وہ بولے۔جوزوی صاحب ۔آپ بھی بڑے سادہ آدمی ہیں ۔عمران خان فقط کرکٹ کے ایک کھلاڑی ہیں ان کوسیاست کاکیاپتہ۔؟عمران خان کی توسیاست میں حیثیت دودھ پیتے بچے کی ہے اوردودھ پیتے بچے کوسیاست کی الف اورب کے بارے میں کیاعلم۔؟جوزوی صاحب یہ سیاست عمران خان جیسے لوگوں کے بس کی بات نہیں۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے سیاسی قصے اورکہانیاں سنانی شروع کردیں۔اس ملاقات کو پھر دن،ہفتے اورمہینے کیاتقریباًپوراسال گزرگیالیکن عمران خان کے بارے میں ان کے یہ الفاظ میرے دل ودماغ میں پھربھی تازہ رہے۔ سال بعدجب ملک میں 2018کے الیکشن کی تیاریاں شروع ہوگئیںتوایک دن اچانک مجھے ایک دوست نے فون کر کے اس صاحب کے بارے میںکہاکہ وہ ’’جناب‘‘ اب عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے ٹکٹ پرقومی اسمبلی کاالیکشن لڑیں گے،انہوں نے پی ٹی آئی کاٹکٹ بھی لے لیاہے۔یہ سنتے ہی مجھے اپنی کانوں پریقین نہیں آرہاتھاکہ میں یہ کیاسن رہاہوں۔عمران خان کواگرسیاست کی الف ب کاکوئی پتہ نہیں اوریہ سیاست اس کے بس کی بات نہیں توپھروہ صاحب اس عمران خان کی پارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن کیسے لڑرہے ہیں۔؟ پھرصرف میں نے نہیں بلکہ پوری دنیانے دیکھاکہ وہی صاحب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر2018کے الیکشن میں ایک بار پھر قومی
اسمبلی کے ممبرمنتخب ہوئے۔اس صاحب کے جیتنے سے میراکوئی لینادینانہیں وہ اگرہارتے بھی توبھی آپ یقین کریں میں نے ایک دودھ پیتے بچے کی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پرالیکشن لڑنے پراس کویہ خراج تحسین پیش کرناہی تھا۔یہ صاحب آج نہ صرف تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں بلکہ کپتان کے صف اول کے ایک اہم کھلاڑی بھی ہیں۔یہ تین سال سے ہرمحاذاورمیدان میں اپنی حکومت اورتحریک انصاف کا دفاع کرنے کے ساتھ ایک دودھ پیتے بچے سے سیاست بھی سیکھ رہے ہیں ۔ان کے قریب آج اس ملک میں عمران خان سے بڑھ کر سیاست کا اور کوئی استاد نہیں۔ یہ جس کپتان کوفقط کرکٹ کاایک کھلاڑی کہتے تھے آج یہ اسی عمران خان کوملک کے سب سے بڑے لیڈراورسیاستدان سے کم کوئی لقب اورخطاب دینے پربھی تیارنہیں۔ان کے نزدیک جس عمران خان کوسیاست کی الف اورب کاکوئی علم نہیں تھاآج بقول ان کے اسی عمران خان سے زیادہ سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والااس ملک میں اورکوئی نہیں۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں یہ توہمیں پتہ ہے لیکن کیاسیاست کے سینے میں شرم وحیاوالی حس بھی نہیں۔؟آئین کے آرٹیکل 62اور63کی باتیں تویہ سب کرتے ہیں۔صادق اورامین والے لیکچربھی ان سب سے ہمیں روزسننے کومل رہے ہیں لیکن کیاہم میں سے کسی نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ ہمارے کندھوں پرسوارہوکراسمبلیوں میں پہنچنے والے یہ نیک ،عابداورپرہیزگارخودکتنے صادق اورامین ہوتے ہیں۔ ڈاکٹرز،حکیم اور ماہرین اس ملک کی تباہی ،بربادی اوراس بیماری کی وجہ چاہے کوئی بھی قراردے رہے ہوں لیکن حق اور سچ یہ ہے کہ اس ملک کی تباہی،بربادی کی وجہ اوربیماری کی جڑہمارے یہی شمارکے چار پانچ سوایم این ایزاورایم پی ایز ہیں۔ ان کاکوئی سیاسی قبلہ ہے اور نہ ہی کوئی زبان۔یہ چیخ چیخ کر جس کوچوراورڈاکوکہتے ہیں دوسرے دن ان کے ہاں اسی چوراورڈاکو سے پھرزیادہ روئے زمین پر معززاورمعتبراورکوئی نہیں ہوتا۔ یہ جس کوسیاسی نابالغ کہہ کردودھ پیتے بچے سے تشبیہ دیتے ہیں پھر اسی کویہ سیاسیوں کاباپ کہتے ہوئے ذرہ بھی نہیں شرماتے۔ جھوٹ، فریب، دھوکہ اور منافقت شائد یہ ان کی عادت ہے ورنہ اس طرح کے کارنامے کوئی باشرم اورباحیاشخص سرانجام نہیں دے سکتا۔میاں نوازشریف کوبرابھلاکہہ کروزیراعظم عمران خان کی قربت حاصل کرنایاعمران خان پرسنگ باری کرکے نوازشریف کے قریب ہوجاناشائدکہ یہ ان کی کوئی عادت یامجبوری ہولیکن انتہائی معذرت کے ساتھ اس منافقت،جھوٹ،فریب اوردھوکے کوسیاست کانام ہرگزنہیں دیاجاسکتا۔ہماری اوراس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں سیاست میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کوجھوٹ،فریب اور دھوکے میں زیادہ تجربہ ہو۔آپ کواگریقین نہیں توآپ آج ہی یہ بات نوٹ کر لیں ۔ اس وقت ہمارے ان ہی ایم این ایزاورایم پی ایز میں جو میاں نوازشریف، آصف علی زرداری، مولانافضل الرحمن ،سراج الحق یاوزیراعظم عمران خان کوسب سے زیادہ برابھلاکہہ رہے ہیں یہی لوگ آئندہ الیکشن میں انہی قائدین اورلیڈروں کی پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر دوبارہ ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے بنیں گے۔آج لوگ میاں نوازشریف کوچوراورآصف علی زرداری کو ڈاکو کہتے ہوئے نہیں تھکتے کل انہی لوگوں کے نزدیک وقریب میاں نوازشریف اورآصف زرداری سے بڑے ایماندار،نیک وپارسااورکوئی نہیں ہوں گے اوریہ جوآج وزیراعظم عمران خان کومائی باپ اوربڑے ایماندارکے القابات وخطابات سے نوازرہے ہیں یہی لوگ کل کوپھرعمران خان کوسیاسی نابالغ اورسیاست کے دودھ پیتے بچے سے تشبیہ دیتے ہوئے ذرہ بھی نہیں شرمائیں گے۔ان کے ہاں وقت کے علاوہ کوئی مائی باپ، کوئی ایماندار اور کوئی سیاسی استاد نہیں۔ یہ سب فقط وقت اورچڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔جس طرف سے سورج نکلا اسی جانب کارخ کرکے یہ اپنی سیاسی عبادت شروع کر دیتے ہیں۔ہم سیاسی قائدین اور لیڈروں کا رونا تو روتے ہیں۔نوازشریف،آصف زرداری اور عمران خان کی کمی ،خامیوں کااحساس وادراک بھی ہمیں ہے لیکن اپنے ان خدائی خدمتگاروں کے حال واحوال کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔سوچنے کی بات ہے جس شخص کی اپنی کوئی زبان نہ ہو۔جس کااپناکوئی سیاسی قبلہ نہ ہو۔ جو خود اپنی ذات اور کردارمیں معتبر نہ ہو۔وہ شخص اسمبلی میں جا کر ملک، قوم اورعلاقے وحلقے کی کیاخاک خدمت کرے گا۔؟ نوازشریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق اورعمران خان کو برا بھلا آپ نے بہت کہا۔ان کوگالیاں اوربددعائیں بھی آپ نے بہت دیں۔ اب ایک بار جھوٹ، فریب، دھوکہ اور منافقت کی کوکھ سے جنم لینے والے ان سیاسی فرشتوں کی بھی خبر لے لیں۔ جب تک آپ ایسے دوغلے ،جھوٹے اور عظیم سیاستدانوں کا راستہ روک کر صادق اور امین لوگوں کواسمبلیوں میں نہیں بھیجیں گے تب تک سیاسی قائدین اور لیڈروں کو برا بھلا کہنے یابددعائیں دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔اپنے حالات بدلنے کے لئے اس طرح کے عجوبوں اورنمونوں کابدلناضروری بہت ضروری ہے۔