اسلام آباد : مبارک احمد کیس میں نظر ثانی درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ مختلف دینی اداروں سے معاونت لی جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے غلطی اگر ہو گئی ہو تو اصلاح ہو سکتی ہے جو جو بھی فیصلے کی حد تک رہنمائی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ بڑے دینی مدارس کو نوٹس جاری کر دیے گئے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سماعت کی ۔ جماعت اسلامی کے وکیل شوکت صدیقی اور اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے ۔عدالت نے جماعت اسلامی کی درخواست کو نمبر لگانے کا حکم دیا ۔
جماعت اسلامی کے وکیل شوکت صدیقی نے موقف اپنایا کہ ہم سمجھتے ہیں مبارک ثانی کیس میں عدالت کی درست معاونت نہیں ہوئی ۔ درخواست گزار نے دفعات حذف کرنے کی استدعا کہیں کی ہی نہیں تھی ۔ جسٹس مسرت ہلالی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا ،کیا یہ ایک ضمانت کے کیس کا معاملہ تھا؟
اٹارنی جنرل نے بتایا ایک درخواست ضمانت کی تھی ایک فرد جرم میں ترمیم کی ۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہمارے ایمان پر سوال نہ اٹھائیں یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ ہمارے ایمان پر سوال نہ اٹھائیں ہم آپ کے ایمان پر نہیں اٹھاتے ۔ امام مالکؒ نے کہاتھا اختلاف ایسے کرو سامنے والے کے سر پر چڑیاں بیٹھی ہوں تو نہ اڑیں ۔ غلطی اگر ہو گئی ہو تو اصلاح ہو سکتی ہے ۔ میں کہوں آج تک کسی فیصلے میں مجھ سے غلطی نہیں ہوئی تو یہ غلط ہو گا۔
چیف جسٹس نے کہا آئین کے معاملے پر جماعت اسلامی کے وکیل کو سنیں گے ۔ کیس کے میرٹس پر صرف متعلقہ فریقین کو سنیں گے جو جو بھی فیصلے کی حد تک رہنمائی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔ عدالت نے معاونت کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل ،دارالعلوم کراچی,جامعہ نعیمیہ لاہور ،جمیعت اہلحدیث,جامعۃ المنتظر لاہور اور قرآن اکیڈمی کو نوٹس جاری کردئیے۔ کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔