"کُنجِ قَفَس" ریٹائر ڈ سینئر بیورکریٹ عزیز گرامی محترم فواد حسن فواد کا شعری مجموعہ ہے جو حال ہی میں چھپ کر سامنے آیا ہے۔ کچھ دن قبل پاکستان آرٹس کونسل (کراچی) کے زیر اہتمام لاہور میں منعقدہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں الحمراہ ہال II میں اس کی تقریب ِ رونمائی منعقد ہوئی۔ عزیز گرامی فواد حسن فواد سے کم و بیش نصف صدی پر محیط استاد اور شاگرد کے رشتے سے عبارت باہمی احترام، محبت اور نیازمندی کے پرخلوص تعلقات کا تقاضا تھا کہ میں اس تقریب میں ضرور شریک ہوتا۔ کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر میں اس تقریب میں شریک نہ ہو سکا جس کا مجھے افسوس ہے، تاہم اس تقریب کی ریکارڈنگ اور اس کی جو جھلکیاں دیکھیں اور سنیں اور کچھ احباب کی زبانی اس کی جو تفصیل سامنے آئی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ تقریب کتاب کی رونمائی سے بڑھ کر اس کی پذیرائی بالخصوص صاحب کتاب کی پرجوش اور ولولہ انگیز پذیرائی کی صورت اختیار کیے رہی۔ اس کے لیے بلاشبہ دل جہاں بے پناہ مسرت کے جذبات سے لبریز ہے وہاں یہ پہلو بھی اطمینان اور خوشی کا باعث ہے کہ کسی پر کتنا ہی کیچڑ کیوں نہ اچھالا جائے، اس کے خلاف الزامات اور جھوٹ کی کتنی ہی طومار کیوں نہ باندھی جائے، انجام کار فتح حق اور سچ کی ہوتی ہے اور تمام طرح کی الزام تراشیاں اور ان پر مبنی جھوٹا پروپیگنڈہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔
فواد حسن فواد کے بارے میں جیسے کہ بہت سارے لوگ جانتے ہیں کہ وہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دور میں کم و بیش چار سال تک اور بعد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے تقریبا ً ایک سالہ دور میں سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر (Principal Secretary) کے عہدہ جلیلہ جو کسی بیوروکریٹ کے عہدے کی معراج سمجھا جا سکتا ہے پر فائز رہے۔ اس سے قبل 2013ء کے اوائل تک وہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے دور میں پنجاب کے مختلف محکموں کے سیکرٹری کے طور پر بھی فرائض سر انجام دیتے رہے۔ ان کی شہرت ہمیشہ اعلیٰ پیشہ ورانہ اور انتظامی صلاحیتوں کے مالک ایک انتہائی ذہین، قابل، دبنگ، حق گو اور بااُصول بیوروکریٹ کی رہی۔ ان کی امانت و دیانت، پورا سچ کہنا اور میرٹ کی پذیرائی جس کے میری طرح کے ان کو زمانہ طالب علمی سے قریب سے جاننے والے گواہی دے سکتے ہیں، ہمیشہ ضرب المثل رہی۔ یہ المیہ تھا یا کسی کو کسی کاامتحان مقصود تھا یا قدرت کی طرف سے کوئی کڑی آزمائش تھی یا کسی کے چہرے پر کالک ملی جانی تھی یا کچھ اور بات تھی کہ مئی 2018ء میں مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی پانچ سالہ معیاد مکمل ہوئی، نگران حکومت کا قیام عمل میں آیا اور عام انتخابات کے انعقاد کا پراسس شروع ہوا تو فواد حسن فوادسول سروس اکیڈمی لاہور میں ڈائریکٹر جنرل کے طور پر تعینات ہوئے۔اس دوران نیب نے لاہور میں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے نام نہاد سکینڈل کی تفتیش شروع کر دی اور فواد حسن فواد پر یہ الزام دھرا گیا کہ 2013ء میں جب وہ وزیر اعلیٰ پنجاب (میاں شہباز شریف) کے سیکرٹری عمل در آمد تھے تو انھوں نے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے منصوبے کا ٹھیکہ منظور شدہ فرم کو دینے کے بجائے دوسری فرم کو دلوانے کی کوشش کی تھی۔ نیب نے کس کی ایما پر اس سیکنڈل
کی تفتیش شروع کی،اس کے پیچھے کون تھا اور فواد حسن فواد کواس میں کیوں ملوث کیا گیا اس سے ہٹ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے لیے یہ اچھا موقع تھا کہ وہ اس کو بنیاد بنا کر فواد حسن فواد سے اپنی دیرینہ مخاصمت کا بدلہ چکا سکیں۔ انہیں دکھ تھا کہ جب وہ (جاوید اقبال) سیشن جج کوئٹہ تھے تو فواد حسن فواد بطور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ ان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ پھر فواد حسن فواد نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر بھی ان (جسٹس جاوید اقبال) کے نام کی بطور چیئرمین نیب تقرری کی مخالفت کی تھی۔چنانچہ آشیانہ ہاوسنگ سکیم کے اس نام نہاد سیکنڈل میں فواد حسن فواد کو زیر تفتیش رکھنے کے ساتھ ان پر ناجائز اثاثے بنانے کا الزام بھی ٹھونس دیا گیا اور نیب لاہور میں ان کی پیشیاں شروع کر دی گئیں۔
5جولائی 2018ء کو وہ پانچویں بار نیب لاہور میں تفتیش کاروں کے سوالوں کے جواب دینے اور ساتھ ہی اپنے اوپر لگائے گئے ناجائز اثاثے بنانے کے الزام کو رد کرنے کے لیے ٹھوس شوائد کے ساتھ پیش ہوئے تو ان کے سامنے ایک بند لفافہ کھولا گیا اور انھیں بتایا گیا کہ اس لفافے میں ان کے وارنٹ گرفتاری ہیں جو اوپر سے جاری کیے گئے ہیں۔ لہٰذا انھیں گرفتار کیا جاتا ہے۔ فواد حسن فواد کے لیے یقینا دکھ اور صدمے کا مقام تھا کہ آخر ایسا کونسا قصور ہے کہ ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ جلد ہی انھیں اس کا جواب مل گیا جب ان کے سامنے ڈیڑھ صفحے پر مشتمل ایک تحریر رکھی گئی کہ وہ اس پر دستخط کر دیں تو ان کی گرفتاری یا ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی خبر تک بھی جاری نہیں ہوگی اور انھیں باعزت طور پر تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دے کر گھر جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔
آخر ڈیڑھ صفحات پر مشتمل یہ تحریر کیا تھی؟ وہ ایک طرح سے ان کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی تحریر تھی جس میں انھوں نے اقرار کرنا تھا کہ آشیانہ ہاؤسنگ سیکم میں انھوں نے جو کردار(مبینہ طور پر) ادا کیا وہ اُوپر (وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف) کی طرف سے آنے والی ہدایات یا احکامات کی روشنی میں کیا تھا۔ فواد حسن فواد کو ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت کی طرف سے بھی سمجھایابجھا یا اور ترغیب دی گئی کہ اس تحریر پر دستخط کرنے سے ان کی مشکلات ختم ہو جائیں گی لیکن فواد حسن فواد نے اس تحریر پر دستخط کرنا اپنی اعلیٰ تربیت کے تقاضوں اور اپنے ضمیر کی آواز کے منافی سمجھا اور نیب کی قید میں چلے جانے کو ترجیح دی۔
فواد حسن فواد کے ساتھ اس کے بعد کیا ہوا اس کی کچھ تفصیل فواد حسن فواد نے اپنے حالیہ ٹی وی انٹرویوز میں بیان کی ہے۔ مختصراً یہ کہ فواد حسن فواد 89 دن تک ریمانڈ پر نیب کی حراست میں رہے۔ اس کے بعدانہیں کیمپ جیل لاہور میں بھیج دیا گیا جہاں وہ 10x10 کے ایک سیل کی آئینی سلاخوں کے پیچھے بند رہے۔ 16ماہ کے بعد 20جنوری 2020 کو لاہور ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت منظور ہوئی تو اس سے تقریباً دس دن قبل 10جنوری 2020کو وہ 60سال کی عمر پوری ہونے کے بعد سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔ اس دوران ان کے خلاف میڈیا میں یکطرفہ طور پر جو خبریں چلائی گئی، جو منفی پروپیگنڈہ کیا گیا، ان کی جو کردار کشی کی گئی وہ اپنی جگہ انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ سانچ کو آنچ نہیں باالاخر فواد حسن فواد کی سچائی اور بے گناہی کو کو احتساب عدالت لاہور نے بھی تسلیم کر لیا اور اس سال 25جنوری کو انہیں ناجائز اثاثے بنانے کے الزام سے باعزت طور پر بری کر دیا گیا ہے۔یقینا یہ حق و سچ کی فتح اور فواد حسن فواد کی بے گناہی کا بڑا ثبوت ہے۔
فواد حسن فواد کی صاف ستھری، اجلی، حق گو اور مضبوط عزم و ارادے کی مالک شخصیت کے بارے میں اور بھی بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن ان کے شعری مجموعے "کُنجِ قَفَس" اور اس کی تقریب رونمائی جسے میں پرجوش تقریب پذیرائی کا نام دینا چاہوں گا کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے۔ میرے خیال میں فواد حسن فواد کی شاعری کے مجموعے "کُنجِ قَفَس"کا پر تو ان کی شخصیت میں اور ان کی شخصیت کا عکس ان کی شاعری کے مجموعے "کُنجِ قَفَس" میں جھلکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ "کُنجِ قَفَس" کی تقریب رونمائی میں مقررین نے جہاں ان کی شاعری کی بے پناہ تعریف کی وہاں ان کی شخصیت کے اصول پسندی، حریت فکری، راست گوئی اور عزم حوصلے کو زبردست خراج تحسین بھی پیش کیا جس کو ایک بہت بڑی تعداد میں حاضرین و ناظرین جن سے لاہور آرٹس کونسل کا وسیع و عریض الحمرا ہال IIبھرا ہوا تھا نے خوب پذیرائی بخشی۔اس کی کچھ تفصیل پنڈی سے جا کر تقریب میں شریک ہمارے مختصر حلقہ احباب کے محترم ساتھی اسماعیل قریشی نے اپنی پوسٹ میں بھی بیان کی ہے۔ان کے مطابق الحمرا ہال ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سیڑھیوں، بالکونیوں اور راستوں میں بھی لوگ کھڑے اور بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں جوانوں کی تعداد زیادہ تھی جو مقررین کی تقاریر کے ہر جملے اور "کُنجِ قَفَس"سے پڑھے جانے والے ہر شعر پر پر جوش انداز سے داد دے رہے تھے تو فواد حسن فواد کے ذکر پر پر زور تالیاں پیٹ کر بھرپورمسرت اور پسندیدگی کا اظہار بھی کر رہے تھے۔ محترم اسماعیل قریشی کے مطابق گفتگو میں شریک تقریبا ً ہر فردنے فواد حسن فواد کے اوصاف محبت اور عقیدت سے بیان کرنے کے ساتھ ان کی دیانت داری پر گواہی اور ان کی دانش اور خوب صورت شاعری کی تعریف اور ان کی جرأت، استقامت اور حق گوئی پر انہیں کھل کر خراج تحسین پیش کیا۔
جناب اسماعیل قریشی کے تاثرات کا یہ حوالہ یقینا قابل قدر ہے۔ "کُنجِ قَفَس" میں شامل ان کی ساری نظمیں اور غزلیں وغیرہ بلاشبہ ہر لحاظ سے قابل تعریف سمجھی جا سکتی ہیں یہاں ان کی ایک نظم "سلال حسن کے لیے ایک نظم" جو انھوں نے دوران حراست اپنے بیٹے سلال حسن کی سالگرہ پر لکھی تھی کا مختصرحوالہ دیا جاتا ہے۔ کتاب کی تقریب رونمائی میں تقریباً سبھی مقررین نے اس نظم کا ذکر کیا جس کو بہت پذیرائی بھی ملی۔ اس کا ایک بند کچھ اس طرح ہے:
مرے بیٹے!
بس اتنا یاد رکھنا
مرے ذمے اب اِس مٹی کا کوئی قرض بھی واجب نہیں ہے
مرے گزرے دنوں کا لمحہ لمحہ اس کا شاہد ہے
مگر پھر بھی
امیرِ شہر یا اُس کا کوئی بھی حِیلہ گر
مجھ پر کوئی دُشنام دے
یا پھر کوئی بُہتان باندھے
اُس کی بھی تردید نہ کرنا
مرے بیٹے، مری جاں
تم مری تقلید نہ کرنا