یوکرائن میں پھنسے پاکستانی طالب علم پر روسی فوجیوں کا تشدد 

یوکرائن میں پھنسے پاکستانی طالب علم پر روسی فوجیوں کا تشدد 
سورس: فائل فوٹو

کیف : روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد دیگر ملکوں کے شہریوں کی طرح پاکستانی شہری اور طالب علم بھی پھنس ہوئے ہیں۔ پاکستانی طالب علموں کا کہنا ہے کہ سرحدی شہر سومی پر دو دن سے روسی فوجیوں کا قبضہ ہو چکا ہے ہمارے پاس کھانے پینے کی اشیا اور پیسے ختم ہو رہے ہیں۔ ہم 15 طلبا یہاں پھنسے ہوئے ہیں، ایک دوست نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی تو اسے روسی فوجیوں نے مارا اور وہ واپس آ گیا۔

  

بی بی سی کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے تیسرے دن صوابی سے تعلق رکھنے والے ثنا اللہ اور ان کے 14 پاکستانی ساتھی روسی سرحد سے 40-50 کلومیٹر پر واقع سومی شہر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ سب افراد سومی سٹیٹ میڈیکل یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں۔

ان طلبا نے مدد کے لیے یوکرین میں واقع پاکستانی سفارتخانے فون کیا تو انھیں کہا گیا کہ وہ لییو یا ترنوپل شہر پہنچیں ۔ یہ دونوں شہر سومی سے بالترتیب 900 اور 800 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں۔ 

دوسری جانب یوکرین میں موجود پاکستانی سفیر میجر جنرل (ریٹائرڈ) نوئیل اسرائیل کھوکھر کا کہنا ہے کہ انھوں نے سومی میں پھنسے ان طلبا سے بات کی ہے مگر سومی روسی فوجوں کے قبضے میں ہے اور ہم اپنے ذرائع سے انھیں وہاں سے نہیں نکال سکتے۔ تاہم طلبا ایسی کسی بھی گفتگو کی تردید کرتے ہیں۔

  

ثنا اللہ کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ کہ روسی فوجیں ہمیں شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دے رہیں۔ دوسرا لییو یہاں سے 900 کلومیٹر جبکہ ترنوپل تقریباً 800 کلومیٹر دور ہے۔ ہمارے پاس نہ تو گاڑی ہے نہ شہر میں پٹرول مل رہا ہے اور نہ یہاں سے کوئی بس یا ٹرین چل رہی ہے۔۔۔ ہر طرف جنگ جاری ہے، ہم اپنے طور پر یہاں سے ان دونوں شہروں تک کیسے جائیں۔

یہ 15 طالبعلم چاہتے ہیں کہ سفارتخانہ لییو یا ترنوپل پہنچنے کے لیے روسی فوج سے ان کے لیے اجازت نامہ لے اور ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرے یا کسی اور راستے سے انھیں نکالنے کا انتطام کرے مگر ان کے مطابق سفارتخانہ مصر ہے کہ وہ خود اپنے طور پر لییو یا ترنوپل پہنچیں جو فی الحال ناممکن اور خطرناک نظر آتا ہے۔

ثنا اللہ بتاتے ہیں کہ ان 15 افراد نے جب کل شہر سے نکل کر خارخیو جانے کوشش کی تو تقریباً 10 کلومیٹر تک جانے کے بعد روسی فوجیوں نے انھیں روکا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے انھیں بتایا کہ ہم غیر ملکی ہیں اور ہمارے سفارتخانے نے ہمیں ان شہروں میں آنے کا کہا ہے لیکن انھوں نے جواب دیا کہ ’جب تک ہم اجازت نہ دیں، آپ شہر سے نہیں جا سکتے۔

ان کے مطابق شہر سے نکلنے کے تینوں خارجی راستوں پر روسیوں کا قبضہ ہے اور انھوں نے ٹینک کھڑے کر کے ناکہ بندی کر رکھی ہے اور ان کے ایک دوست کو نکلنے کی کوشش کے دوران مارا پیٹا بھی گیا۔

  

ثنا اللہ بتاتے ہیں کہ چونکہ ان کا شہر بالکل سرحد کے قریب ہے اسی لیے آج سے تقریباً ایک ہفتہ قبل انھوں نے سفارتخانے کو مطلع کیا تھا کہ ’یہاں حالات بہت خراب ہو رہے ہیں اور ہم یہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، بتائیں ہم کیا کریں؟ جس پر سفارتخانے نے پہلے تو یہ پوچھا کہ ’سومی ہے کہاں؟‘ ہم تو دنگ رہ گئے اور ان سے پوچھا ’کیا آپ واقعی سفارت خانے میں کام کرتے ہیں؟

ثناءاللہ کا کہنا ہے کہ  ان کا میڈیکل کے تیسرے سال کا امتحان ہونے والا تھا جس کے باعث یونیورسٹی نے انھیں ہفتہ قبل نکلنے کی اجازت نہیں دی، انھوں نے سفارتخانے سے یہ کہہ کر مدد مانگی کہ وہ یونیورسٹی انتظامیہ سے بات کریں کیونکہ انھیں خدشہ تھا سب سے پہلے اسی شہر پر قبضہ ہو گا جس پر سفارتخانے نے کہا ’آپ پڑھائی پر توجہ دیں۔ 

مصنف کے بارے میں