آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا پُرامید ہیں کہ یہ تحریک عدم اعتمادکے ذریعے وزیراعظم عمران خان کوگھربھیج دیں گے لیکن حالات وواقعات بتارہے ہیں کہ ایسا کرنا یا ہونا اتنا آسان اور سادہ نہیں۔ جولوگ ساڑھے تین سالوں میں کپتان کاکچھ نہیں بگاڑسکے اب وہ کپتان کے خلاف کیاتیرچلاپائیں گے۔؟جاننے والے جانتے ہیں کہ دوسروں کے جنازوں پرجانے والوں کے اکثرنہیں توبسااوقات اپنے جنازے بھی ان سے پہلے نکلتے ہیں۔ زرداری، شہباز اور مولاناجس ڈولی کوکپتان کی رخصتی سمجھ رہے ہیں کہیں اسی ڈولی میں اپوزیشن کاجنازہ تونہیں۔کیونکہ ایک بات اٹل ہے کہ تحریک عدم اعتمادکے ذریعے یاتوکپتان کی رخصتی ہوگی یا پھر اپوزیشن کاجنازہ نکلے گا۔ کیونکہ سیاست اور سیاستدانوں کے ڈسے عوام نے اگرکپتان کی رخصتی نہیں دیکھی تو پھر وہ اپوزیشن کاجنازہ دیکھے بغیربھی نہیں رہ سکیں گے ۔سچ پوچھیں توعوام کوکپتان کی رخصتی کے ساتھ اپوزیشن کاجنازہ دیکھنے کابھی بڑاشوق ہے۔ وہ اپوزیشن جس کے ذوق کے باعث پچھلے ساڑھے تین چارسالوں سے روزانہ اس ملک میں غریب عوام کے جنازے نکل رہے ہیں۔ اب عوام ان کاجنازہ دیکھنا کیسے پسندنہیں کریں گے۔؟یہ اپوزیشن والے کپتان سے جس طرح آج نجات پانے کی راہیں دیکھ رہے ہیں یہی راستے اگریہ دو تین سال پہلے تلاش کرتے توکیاعوام کوحکومتی مظالم کے ہاتھوں اس طرح روز روز مرنا پڑتا۔؟ آج جولوگ تحریک عدم اعتماداورحکومت سے جان چھڑانے کو فرض قراردے رہے ہیں قوم کے یہ غمخوار اس وقت کہاں تھے جب اسی کپتان کو کھلاڑیوں سمیت گھر بھیجنا ان پر قوم کی طرف سے اہم فرض کے ساتھ ایک قرض بھی بن گیاتھا۔ملک اورقوم کے غم میں آج آنسوئوں پرآنسوبہانے والے یہ غیرت مند اس وقت کہاں تھے جب حکومت مہنگائی، غربت، بیروزگاری ، ٹیکسز کی بھرمار، بجلی، گیس، ادویات اور پٹرولیم کی مدمیں لوٹ مارکے ذریعے غریب عوام پرطرح طرح کے مظالم ڈھارہی تھی۔ کپتان اورکپتان کے کھلاڑیوں نے ملک اورقوم کے ساتھ جو کرنا تھا وہ تو انہوں نے کر لیا ہے اب ویسے بھی تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکلنے میں زیادہ دیر نہیں۔ زیادہ سے زیادہ عوام کومزیدایک سال یہ حکومت نامی مصیبت برداشت کرنی پڑے گی۔ جہاں ساڑھے تین چارسال ظلم پرظلم سہہ لئے ہیں وہاں ایک سال اورظلم کے سائے میں گزارنے سے کونساآسمان گرجائے گا۔تین سال خاموشی سے تماشا دیکھنے کے بعد اب زرداری، شہباز اور مولانا کی راتوں رات وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے بارے میں یہ بے قراری بتا رہی ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ نہیں بلکہ اکثر دال ہی کالی ہے۔ قوم کے ان سیاسی بزرگوں اورمشران کوعوام سے زیادہ اپنی پڑی ہوئی ہے۔ان میں ہرایک کی خواہش ہے کہ ان کے ہرفیصلے سے عوام کاکچھ ہویانہ لیکن کم ازکم ان کے لئے اقتدارکی راہ ضرور ہموار ہو۔ بہرکیف اپوزیشن کے انہی سیاسی فرشتوں کودیکھ کر اب کپتان نے بھی ان سے سیاست سیکھ لی ہے۔ یہ سب توکپتان کوسیاست سے نابلدسمجھ رہے تھے لیکن وہ توکرکٹ کے ساتھ سیاست کے بھی ایسے کھلاڑی نکلے کہ اف توبہ۔تب ہی تو اب وہ سیاست کے انہی بادشاہوں اوراستادوں کے چھکے بھی چھڑارہے ہیں۔اس وقت دونوں اطراف سے صرف اقتدارکے لئے کھینچاتانی جاری ہے کپتان ہے تواسے بھی اقتدارسے چمٹے رہنے کی فکرنے پاگل کیاہواہے ،اپوزیشن والے ہیں تووہ ان سے زیادہ پاگل ہوچکے ہیں۔اقتدارکے اس کھیل میں عوام کی فکرکسی کونہیں۔اپوزیشن والوں کی خواہش ہے کہ کپتان اقتدار وحکومت والی گلی سے دو ہاتھ اور دو پائوں کل نہیں آج ہی نکل جائیں جبکہ کپتان کی آرزوہے کہ اس ملک کابادشاہ سلامت وہی رہیں۔ ہاتھیوں کی اس دوڑاورمقابلے میں عوام صرف رگڑے ہی جارہے ہیں اورمعلوم نہیں کہ کب تک اوررگڑے جائیں گے۔اپوزیشن والے توساڑھے تین سال گزرنے کے بعداب کپتان کے خلاف صف بندیاں کررہے ہیں جبکہ وزیراعظم نے توپہلے ہی دن ان کے خلاف محاذکھول دیاتھا۔اب دیکھنایہ ہے کہ کون فاتح ٹھہرتاہے۔ہمیں پتہ ہے کہ بدترین حکمرانی کے باعث اس وقت سب ہوائوں کارخ کپتان کی طرف ہے لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کے لئے بھی حالات موافق نہیں۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادیہ اپوزیشن کے لئے کسی رسک کم نہیں۔اللہ نہ کرے اگرکپتان کے خلاف تحریک عدم اعتمادناکام ہوگئی توپھراپوزیشن کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں بچے گا۔فی الحال جوعزت بچی ہے تحریک عدم اعتمادکی ناکامی سے یہ بھی ہوامیں اڑے گی۔اس لئے اپوزیشن کوسوچ سمجھ کرتحریک عدم اعتمادکی وادی میں کودناپڑے گاورنہ بصورت دیگر پھر ہاتھ ملنے اور پچھتاوے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہے گا۔عددی اکثریت کے باوجود اپوزیشن سینیٹ میں حکومت کاراستہ روک نہیں پا رہی۔ اپنے ہی بندوں پران کاکنٹرول نہیں۔ باہران کے جوستراسی بندے ہوتے ہیں اندر جا کر وہی پھر سکڑ کر چالیس پچاس رہ جاتے ہیں ایسے میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادکی کامیابی یہ کوئی بڑامعجزہ ہی ہو سکتا ہے ویسے لگتا نہیں کہ اپوزیشن کے ان تلوں میں اس طرح کاکوئی تیل ہو۔ جہاں تک خوش فہمی کی بات ہے توآپ کو یاد ہو گا پی ڈی ایم کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے جب حکومت کے خلاف مارچ کیاتھاتواس وقت بھی اسلام آبادسے واپسی پر چادر کو کندھوں پرٹکتے ہوئے مولانا اس سے زیادہ خوش اور مطمئن دکھائی دے رہے تھے لیکن اس خوشی اور اطمینان کا پھر کیا ہوا۔؟ یہ غالباًاب کوئی رازوالی بات نہیں رہی ہے۔اس کے علاوہ پارلیمنٹ کے اندراپوزیشن کی تحریکوں اورعدم اعتمادکی گنتیوں کاسابقہ ریکارڈبھی اسی طرح کی خوش فہمیوں اوروقتی اطمینان سے کچھ الگ نہیں۔مخالف یامدمقابل پہلوان سے لڑائی کے وقت کمزوردل پہلوانوں کے بھاگنے کاہم نے صرف سناتھالیکن سیاست کے میدان میں حکومت سے پنجہ آزمائی کے وقت ہم نے اپوزیشن کے ٹاپ لیڈروں اورقائدین کاغائب ہونااپنی ان آنکھوں سے دیکھا۔جہاں ٹیم لیڈکرنے والوں کی اپنی یہ حالت ہووہاں پھر چترال، کوہستان، بٹگرام یا بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک ایم این اے اورسینیٹرسے کیا گلہ۔؟ انہی حالات کودیکھ کرہم کہہ رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتمادکپتان کی رخصتی کی بجائے کہیں اپوزیشن کاجنازہ تونہیں۔اپوزیشن والے ایک بات یادرکھیں کہ اگرتحریک عدم اعتمادکے ذریعے انہوں نے وزیراعظم کورخصت نہیں کیاتوپھرمولاناکی اقتداء میں ان سب کو اپنا جنازہ آپ پڑھانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیے۔ کیونکہ تحریک عدم اعتمادسے یاتوکپتان کی رخصتی ہوگی یاپھران کاجنازہ نکلے گااورآگے پھر عام انتخابات بھی ہیں۔
کپتان کی رخصتی یااپوزیشن کاجنازہ
08:57 AM, 26 Feb, 2022