دورۂ روس: ’’وقت منصف ہے فیصلہ دے گا‘‘

دورۂ روس: ’’وقت منصف ہے فیصلہ دے گا‘‘

روسی یوکرین تنازع پر ہمارے دو تجزیے تھے جو دونوں غلط ثابت ہو گئے کئی ہفتوں سے جاری جنگ کی دھمکیوں اور روس کی یوکرین کی سرحد پر فوج کی تعیناتی میں ہما را اندازہ یہ تھا کہ روس یوکرین پر حملہ نہیں کرے گا جو غلط ثابت ہوا۔ پچھلے کچھ عرصہ میں امریکہ کی جانب سے روسی حملے کے امکانات پر بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے روس کو خبردار کیا جا رہا تھا کہ وہ ایسے غلطی نہ کرے جس طریقے سے امریکی انتظامیہ کے اعصاب پر یوکرین سوار تھا ہمارا اندازہ تھا کہ اگر روس نے ایسا کیا تو ’’امریکہ براہ راست جنگ میں شریک ہو جائے گا وہ بھی غلط ثابت ہوا۔ امریکہ کا سارا زور اقوام متحدہ کے ذریعے اقتصادی پابندیوں نیٹو کو متحرک کرنے اور روس مخالف پراپیگنڈا کی حد تک تھا اور ابھی تک وہی چل رہا ہے۔
امریکہ کی فوری فوجی مداخلت کا دور دور تک امکان نظر نہیں آتا اور اب اگر وہ ایسا کرنا چاہے بھی تو اس کے لیے کئی ماہ لگ جائیں گے اور اس کے بعد بھی یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ یوکرین میں چونکہ امریکہ کا کوئی فوجی اڈہ نہیں ہے ورنہ امریکہ فوری طور پر کمک بھیج سکتا تھا اور اب اس طرح کی کسی سہولت کا امکان نہیں ہیں کیونکہ اب روس وہاں پہنچ چکا ہے اور یہ سطور چھپنے تک روس بہت آگے بڑھ چکا ہو گا کیونکہ یوکرین کی فوجی مزاحمت بہت کمزور ہے۔ یہ معاملہ طوالت پکڑے گا اور مزید تنازعات کا شکار ہو جائے گا۔ عالمی امن کا خواب ایک دفعہ پھر ٹوٹ جائے گا اور دنیا جنگ عظیم دوم کے بعد کی سرد جنگ کی کیفیت سے دوچار ہوجائے گی۔ 
یوکرین میں جو کچھ ہوا ہے اس کے پیچھے گزشتہ 30 سال کی تاریخ ہے۔ 1994ء میں روس سے آزاد ہونے کے بعد یوکرین میں ہمیشہ روس نواز حکومتیں بنتی رہی ہیں یوکرین آبادی کا 30 فیصد حصہ روسی النسل عوام پر مشتمل ہے جو روس سے محبت کرتے ہیں۔ حالات اس وقت زیادہ خراب ہوئے جب 2019ء میں موجودہ صدر والڈو میر زیلی لنسکی برسراقتدار آئے یہ بنیادی طور پر ایک مزاحیہ اداکار تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اداکار،کھلاڑی اور شاعر سیاست اور حکمرانی میں کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ وہ سیاست کو فلم کا سٹیج یا کھیل کا میدان سمجھتے ہیں۔ بہرحال ذیلی لنسکی نے برسراقتدار آکر نیٹو ممالک سے تعلقات بڑھانا شروع کردیے اور جب روس نے یہ دیکھا کہ ذیلی لنسکی روس کی دہلیز پر نیٹو کو کھڑا کرنا چاہتا ہے تو اس کا انجام یہ ہوا جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ یورپین ممالک اور 
امریکہ زبانی طور پر بیان دے رہے ہیں مگر جنگ میں ہمیں اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے گویا انہیں احساس ہو چکا ہے کہ نیٹو اور امریکہ نے انہیں دھوکہ دیا ہے۔
دوسری طرف روسی پلان یہ ہے کہ ذیلی لنسکی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے اور وہاں روس نواز حکومت قائم کرنے کے بعد روسی فوجیں وہاں سے واپس چلی جائیں یہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے اس میں بہت سے مسائل اور دشواریاں ہیں روس نے یہ دیکھنا ہے کہاگر وہ فوری انخلا کرتے ہیں تو نیٹو افواج یوکرین میں قدم نہ رکھیں اس سے دنیا ایک نئی معاشی صف بندی کا شکار ہو جائے گی۔ اس صورت میں غریب ممالک کے لیے زندگی اور کٹھن ہو جائے گی۔
اس وقت یورپین یونین ممالک کی پٹرول کی ضروریات روس پوری کرتا ہے جو دنیا بھر میں سعودی عرب کے بعد تیل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے بعد روس ڈالر یورو اور دیگر بین الاقوامی کرنسیوں میں کاروبار نہیں کر سکے گا جس کے اور روسی لیرا کی گراوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ بھی یہی تنازع ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ روس پر پابندیوں کے بعد دنیا میں تیل سپلائی میں کمی ہو گی جس سے قیمتیں اوپر جائیں گی جس کا سب سب سے بڑا فائدہ سعودی عرب کو ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹا بھی دی جائیں تو وہ اس قابل نہیں ہے کہ وہ روس کی کمی کو پورا کر سکے۔یورپی یونین کے ممالک کے لیے متبادل پٹرول ذرائع کی فراہمی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے سعودی عرب تاثر دے رہا ہے کہ وہ یومیہ پیداوار نہیں بڑھا سکتے کہ ڈیمانڈ پوری کرسکیں۔
اس سارے عالمی منظرنامے میں سب سے زیادہ متنازعہ حیثیت پاکستان کی ہے۔ اس وقت جبکہ پوری دنیا روس کی مذمت کر رہی ہے، پاکستانی وزیراعظم روس کا دورہ کرنا بہت controversial ہو چکا ہے۔ انڈیا جو روس کا دیرینہ ساتھی رہا ہے ، اس نے بھی اس معاملے میں روس کا ساتھ نہیں دیا بلکہ انڈیا میں اس بات پر شرطیں لگ گئیں کہ وزیراعظم عمران خان روس کا دورہ منسوخ کر دیں گے مگر ان کے اندازے غلط ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس کے جنگی پلان میں یہ طے شدہ تھا کہ انہوں نے 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کرنا ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے دورے کو آن رکھا لیکن پاکستانی معاملے کا ادراک نہیں کرسکا پاکستان کی خارجہ پالیسی رد عمل کی پالیسی ہوتی ہے تمام پاکستانی حکام کی روایت ہے کہ جب امریکہ سے تعلقات بہت زیادہ کشیدہ ہوں تو یہ فوراً چائنا کا دورہ شروع کردیتے ہیں لیکن اب کی بار بائیڈن کے عمران خان کو فون نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان نے ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے چائنا کے ساتھ ساتھ روس کے دورہ کا پروگرام بنا یا جو کسی بھی سربراہ مملکت کا 23 سال میں پہلا دورہ تھا مگر اس کی ٹائمنگ غلط ہوگئی۔ اس وقت پاکستان کی حیثیت یہ ہے کہ وہ نہ تو روس اقدام کی مخالف کر سکتا ہے اور نہ ہی حمایت کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی اس دورے میں کوئی اقتصادی فوائد ملنے کی امید ہے۔ روس خود پابندیوں کا شکار ہے اور اس کی کرنسی 50 فیصد گر چکی ہے۔ 
اس دفعہ امریکہ نے پاکستان کے بارے میں نہایت محتاط رد عمل دکھایا ہے امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو بتا دیا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ وزیرا عظم عمران خان اس تنازعے پر اپنا موقف دیں گے گویا انہوں نے اس دورے کو متنازعہ قرار دیدیاہے اور میڈیا میں پاکستان کے خلاف بیان دینے سے احتراز کیا ہے۔ جس سے معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوتاہے پاکستان کے اپنے معاشی مسائل ایسے ہیں کہ اگر ملک پر اقتصادی پابندیاں لگ جائیں تو یہ چند ہفتوں میں دیوالیہ ہو جائے گا کیونکہ پاکستان کا سارا عالمی کاروبار ڈالر کا مرہون منت ہے ان حالات میں جب دنیا بھر کا میڈیا یوکرین پر روسی بمباری کی تصویرکشی کر رہا تھا تو ہمارے وزیراعظم دوسری جنگ عظیم کے روسی ’’شہداء‘‘ کی قبروں پر پھول نچھاور کر رہے تھے جو امریکہ کے زخموں پر نمک پاشی سے کم نہیں۔ دورۂ روس پاکستان کی خارجہ پالیسی کے آپٹکس میں سیریس نقائص کی نشاندہی کرتا ہے جو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ حب چین جیسی سپر پاور روس کی واضح حمایت کی بجائے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے تو روسی صدر پیوٹن سے 3 گھنٹے کی ملاقات کی کیا ضرورت تھی۔ اقوام متحدہ روسی جارحیت کی حمایت کرنے والوں پربھی پابندیاں لگانے کا بل منظور کر سکتی ہے۔ 
وقت منصف ہے یہ فیصلہ دے گا کہ ہم تاریخ کی الٹی سائیڈ پر کھڑے تھے یا سیدھی طرف روس اس تنارعہ سے Recover کر جائے گا اسے اتنا مسئلہ نہیں ہوگا لیکن پاکستان کیلئے اس تاریخی دورے کی تپش کا سامنا آسان نہیں ہوگا۔
ہم اگر آگہی کے مجرم ہیں
وقت منصف ہے فیصلہ دے گا

مصنف کے بارے میں