کیا آپ جانتے ہیں پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر کون کون سی معروف جگہوں کی تصاویر شائع کی گئی ہیں؟جانئے ایسی معلومات جو شائد آپ کو پہلے کسی نے نہ دی ہوں

کیا آپ جانتے ہیں پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر کون کون سی معروف جگہوں کی تصاویر شائع کی گئی ہیں؟جانئے ایسی معلومات جو شائد آپ کو پہلے کسی نے نہ دی ہوں

لاہور(ندیم میاں)اکثر اوقات ہماری روز مرہ زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں مگر ہم ان پر سر سری کی نظر ڈالنے کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یہ جاننے اور مشاہدہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ ان چیزوں کا مقصد کیا ہے اور ہماری روز مرہ زندگی میں ان کا کیا کردار ہے؟ایسا ہی پاکستان کے کرنسی نوٹوں کے ساتھ ہے کہ ہم ان کو استعمال تو کرتے ہیں ان کو دیکھتے بھی ہیں مگر یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ان پر بنی تصاویر یا تفصیلات کا کیا مقصد ہے اور آخر کار کیا وجہ ہے کہ ان تصاویر کو نوٹوں پر ہی شائع کیا گیا ؟ہم آج آپ کو انہی کرنسی نوٹوں کے بارے ایسی معلومات دیتے ہیں جو کہ شائد آج سے پہلے آپ کو پتہ نہیں ہونگی اور نہ ہی کسی نے بتائی ہونگی۔
10 روپے کا نوٹ


سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کئے گئے دس روپے کے کرنسی نوٹ کی پشت پر جس پاکستانی معروف جگہ کی تصویر لگائی گئی ہے وہ صوبہ کے پی کے کا داخلی دروازہ ’باب خیبر ‘ ہے ۔ بابِ خیبر ایک مشہورمحرابی دروازہ سا ہے جس کے ذریعے سے لوگ درہ خیبر میں داخل ہوتے ہیں۔ قلعہ جمرود اس کے دائیں جانب واقع ہے۔

20 روپے کا نوٹ


دس روپے کے بعد سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کئے جانیوالے بیس روپے کے نوٹ کے عقب میں شائع کی گئی تصویر کے مقام کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس نوٹ پر موہنجودڑو کی تصویر دی گئی ہے۔ موہنجودڑو وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا ایک مرکز تھا۔ یہ لاڑکانہ سے بیس کلومیٹر دور اور سکھر سے 80 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی سندھ کی تہذیب کے ایک اور اہم مرکز ہڑپہ صوبہ پنجاب سے 686 میل دور ہے یہ شہر 2600 قبل مسیح موجود تھا اور 1700 قبل مسیح میں نامعلوم وجوہات کی بناءپر ختم ہو گیا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں دریائے سندھ کے رخ کی تبدیلی، سیلاب، بیرونی حملہ آور یا زلزلہ اہم وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اسے قدیم مصر اور بین النہرین کی تہذیبوں کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ 1980ءمیں یونیسکو نے اسے یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔
50 روپے کانوٹ


بیس روپے کے نوٹ کے بعد باری آتی ہے پچاس روپے کے کرنسی نوٹ کی اور سٹیٹ بینک کی جانب سے اس نوٹ کی پشت پر جس مشہور جگہ کی تصویر شائع کی گئی ہے وہ پاکستان کا پہاڑی سلسلہ کوہ قراقرم ہے ہے ۔سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کالی بھربھری مٹی۔کے ٹو سلسلہ قراقرم کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ جو بلندی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔اس کی بلندی 8611 میٹر ہے اسے گوڈسن آسٹن بھی کہاجاتا ہے۔ قراقرم میں 60 سے زیادہ چوٹیوں کی بلندی 7000 میٹر سے زائد ہے۔ اس سلسلہ کوہ کی لمبائی 500 کلومیٹر/300 میل ہے۔ دریائے سندھ اس سلسلے کا اہم ترین دریا ہے۔


100 روپے کا نوٹ


پاکستان کے مرکزی بینک نے جاری کئے گئے سوروپے کے کرنسی نوٹ کے عقب پر زیارت میں موجود بانی پاکستان قائداعظم کی رہائش گاہ ’قائداعظم ریذیڈنسی‘ کی تصویر شائع کی ہے۔قائداعظم ریذیڈنسی سنہ 1892 کے آس پاس لکڑی سے تعمیر کی گئی تھی۔یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اس دور میں جو بھی حکومتِ برطانیہ کے افسران یہاں آتے تھے وہ اس رہائشگاہ میں قیام کرتے تھے۔قیام پاکستان کے بعد 1948ءمیں اس رہائش گاہ کی تاریخی اہمیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب یکم جولائی کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر ناساز طبیعت کے باعث یہاں تشریف لائے۔ قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری دو ماہ دس دن اس رہائش گاہ میں قیام کیا۔ جس کے بعد اس رہائش گاہ کو "قائداعظم ریزیڈنسی" کا نام دے کر قومی ورثہ قرار دیا گیا۔


500 روپے کا نوٹ


سو روپے کے بعد پانچ سو روپے کے کرنسی نوٹ کی پشت پر مغلیہ دور کی بنائی گئی تاریخی بادشاہی مسجد کی تصویر بنائی گئی ہے جو کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع ہے۔بادشاہی مسجد 1673 میں اورنگزیب عالمگیر نے لاہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار مثال ہے اور لاہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے، جس میں بیک وقت 60 ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں۔ اس مسجد کا انداز تعمیر جامع مسجد دلی سے بہت ملتا جلتا ہے جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے 1648 میں تعمیر کروائی تھی۔


1000 روپے کا نوٹ


اب آتے ہیں ایک ہزار روپے کے پاکستانی کرنسی نوٹ کی طرف اور اس نوٹ کے عقب پر جس معروف جگہ کی تصویر شائع کی گئی ہے وہ اسلامیہ کالج پشاور کی تصویر ہے۔اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور پاکستان میں ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ہندوستان کے مسلمانوں میں انگریز سرکار کے دور کے اندر جن اداروں نے ایک نئی روح پھونک دی اور ان کو ان کے حقوق کی حفاظت کرنے کا احساس دلایا ان اداروں میں ایک معتبر نام اسلامیہ کالج پشاور کا بھی ہے۔

کوہ سفید اور تاریخ درہ خیبر کے دامن میں واقع اسلامیہ کالج پشاور ، پشاور صدر سے پانچ کلو میٹر مغرب میں جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ 121 ایکڑ اراضی پر مشتمل یہ کالج جنگِ عظیم اول سے ایک سال قبل 1913ءمیں قائم کیا گیا۔ اس کی بنیاد صاحبزادہ عبدالقیوم خان اور سر جارج روس کیپل نے رکھی۔ یہ کالج جس جگہ قائم کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں ماہرین آثار قدیمہ کے حوالے میں معلوم ہوا ہے کہ اس مقام پر آج سے تقریباً 1800 سال قبل 200ء میں بدھ مت کی تعلیمات کے لیے ایک بہت بڑی خانقاہ موجود تھی۔ اس وقت کشان خاندان کا راجہ کنشکا یہاں پر بر سر اقتدار تھا۔


5000 روپے کا نوٹ


سب سے آخر میں پاکستان کا پانچ ہزار روپے کا کرنسی نوٹ ہے جس کے بعد ابھی تک اس سے زیادہ مالیت کا نوٹ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری نہیں کیا گیا جبکہ اس کرنسی نوٹ کے عقب پر جس جگہ کی تصویر شائع کی گئی ہے وہ اسلام آباد میں واقع پاکستان کی سب سے بڑی مسجد فیصل مسجد کی تصویر ہے۔فیصل مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ایک عظیم الشان مسجدہے جسے جنوبی ایشیاءکی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ عظیم مسجد اپنے انوکھے طرز تعمیر کے باعث تمام مسلم دنیا میں معروف ہے۔مسجد کا سنگ بنیاد اکتوبر 1976ءکو رکھا گیا اور تکمیل 1987ءمیں ہوئی۔

شاہ فیصل مسجد کی تعمیر کی تحریک سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے 1966 کے اپنے دورہ اسلام آباد میں دی۔ 1969 میں ایک بین الاقوامی مقابلہ منعقد کرایا گیا جس میں 17 ممالک کے 43 ماہر فن تعمیر نے اپنے نمونے پیش کیے۔ چار روزہ مباحثہ کے بعد ترکی کے ویدت دالوکے کا پیش کردہ نمونہ منتخب کیا گیا۔ پہلے پہل نمونے کو روایتی مسجدی محرابوں اور گنبدوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں مسجد کی خوبصورت تعمیر نے تمام نقادوں کی زبان کو قفل لگادیئے۔


سعودی حکومت کی مدد سے دس لاکھ سعودی ریال (کم و بیش ایک کروڑ بیس لاکھ امریکی ڈالر) کی لاگت سے 1976 میں مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ تعمیری اخراجات میں بڑا حصہ دینے پر مسجد اور کراچی کی اہم ترین شاہراہ 1975ء میں شاہ فیصل کی وفات کے بعد ان کے نام سے موسوم کردی گئی۔ تعمیراتی کام 1986ء میں مکمل ہوا اور احاطہ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بنائی گئی۔ سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق کے مزار کی چھوٹی سی عمارت مسجد کے مرکزی دروازے کے قریب واقع ہے۔