9 مئی کے حوالے سے ’’تحریک انصاف‘‘ کا معاملہ ایک گورکھ دھندا بنتا جا رہا ہے۔ تو کیا یہ محض ایک واہمہ تھا؟ کوئی اشتباہِ نظر تھا؟ کسی جادوگر کی ساحری تھی جس نے ہماری آنکھوں اور دل و دماغ میں کچھ نقوش ثبت کر دئیے اور ہم اِن ’’تخیلاتی ہیولوں‘‘ کو حقیقی مناظر سمجھ بیٹھے؟ اگر ایسا نہیں اور تحریکِ انصاف واقعی 9 مئی کو دفاعی تنصیبات پر حملوں کے ذریعے فوج میں بغاوت ابھارنے اور آرمی چیف کا تختہ اُلٹ کر انقلاب برپا کرنے کی سازش کا حصہ تھی تو سات ماہ سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود اتنی بڑی باغیانہ واردات کی تمام تر جزئیات کیوں سامنے نہیں آ رہیں؟ اس کے منصوبہ سازوں کے چہروں پر ابھی تک کیوں پردہ پڑا ہے؟ سازش کی تمام کڑیاں جوڑ کر پوری کہانی کیوں نہیں کہی جا رہی؟
گزشتہ ہفتے، امریکی ریاست ’کولوراڈو‘ کی سپریم کورٹ نے، سابق صدرِ امریکہ، ڈونلڈ ٹرمپ کو پارلیمنٹ (کیپیٹل ہِل) پر حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں، آئندہ صدارتی انتخابات لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ وہ 4 جنوری تک امریکی سپریم کورٹ میں اپیل کا حق رکھتے ہیں۔ کولوراڈو عدالت نے ٹرمپ کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا … ’’عدالت کی اکثریت کی رائے کے مطابق، صدر ٹرمپ کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے آئین کی چودھویں ترمیم کے سیکشن تین کے تحت، صدر کے عہدے کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔۔۔ ہم ان نتائج پر سرسری طور پر نہیں پہنچے۔ زیر نظر سوال کی سنگینی اور دبائو سے ہم پوری طرح آگاہ ہیں۔ اسی طرح کسی خوف، رُو رعایت اور اپنے فیصلوں پر عوامی ردّعمل کو خاطر میں لائے بغیر قانون نافذ کرنے کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی بھی ہمارے ذہن میں ہے۔‘‘
امریکی انتخابات میں جوبائیڈن کی کامیابی پر سیخ پا ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے فدائین کو اُکسایا کہ وہ احتجاج کے لیے واشنگٹن کا رُخ کریں۔ سوشل میڈیا پر ایک فتنہ ساماں مہم چلائی۔ مشتعل ہجوم نے 6 جنوری 2021 کو امریکی پارلیمان ’’کیپیٹل ہِل‘‘ پر ہلّہ بول دیا۔ دو ہزار کے لگ بھگ شرپسند عمارت میں گھُس گئے۔ توڑ پھوڑ اور ہُلّڑ بازی کی۔ وہ دن اور آج کا دن، ریاستی نظم کے ادارے چین سے نہیں بیٹھے۔ ایوان نمائندگان نے نو ارکان پر مشتمل ’’6 جنوری تحقیقاتی کمیٹی‘‘ قائم کی۔ کمیٹی نے وقوعہ کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے لیے متعدد ٹیمیں تشکیل دیں۔ ’’گرین ٹیم‘‘ نے جانچا کہ 6 جنوری کے حملے میں کون سا پیسہ استعمال ہوا اور کہاں سے آیا؟ ’’گولڈ ٹیم‘‘ نے جائزہ لیا کہ ٹرمپ نے زور زبردستی کے کون سے حربے استعمال کیے اور کیا کوئی ارکانِ کانگرس بھی اس میں ملوث تھے؟ ’’پَرپَل ٹیم‘‘ نے جانچ پڑتال کی کہ سوشل میڈیا میں آگ بھڑکانے والے عناصر کون تھے؟ ’’ریڈ ٹیم‘‘ نے دیکھا کہ سازش کہاں تیار ہوئی اور منصوبہ ساز کون تھے؟ ’’بلیو ٹیم‘‘ نے شرپسندوں کو اُکسانے والے بیانات اور دھمکیوں کا جائزہ لیا۔ کمیٹی نے ایک ہزار سے زائد شہادتیں
قلم بند کیں۔ دس لاکھ سے زیادہ دستاویزات کا جائزہ لیا۔ دو لاکھ امریکی شہریوں نے وڈیوز فراہم کیں۔ ڈیڑھ برس کی تفصیلی چھان پھٹک کے بعد کمیٹی نے دسمبر 2022 میں 845 صفحات پر مشتمل جامع رپورٹ پیش کر دی۔ کمیٹی نے ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ ’’کوئی بھی شخص، جو اس طرح کے مخصوص حالات میں ایسا روّیہ اختیار کرے، کبھی دوبارہ کسی بااختیار ریاستی عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔ بلکہ وہ کسی بھی عہدے کے لیے نااہل ہے۔‘‘
پارلیمانی کمیٹی جب اپنا کام کر رہی تھی تو ایف بی آئی، محکمہ انصاف اور دیگر تمام ادارے بھی پوری طرح متحرک تھے۔ ہزاروں افراد حراست میں لیے گئے۔ سیکڑوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ بیسیوں اب بھی زیر تفتیش ہیں۔ باغیانہ سازش کے الزام میں ہینری ٹیریو کو بائیس سال قید کی سزا ہوئی جو موقع پر موجود بھی نہ تھا بلکہ کئی ماہ سے زیرِ حراست تھا لیکن اُس کا تعلق فتنہ گری سے پایا گیا۔ سٹیورٹ رہوڈس کو 18 سال، ایک سابق فوجی ایتھن نارڈین کو 18 سال، جوزف بگس کو 16 سال اور پولیس افسر سے ہاتھا پائی کرنے والے شخص سپر ہیڈ کو ساڑھے سات سال قید بولی گئی۔ سپیکر نینسی پلوسی کے ڈیسک پر پائوں رکھنے والا رچرڈ بار نیٹ ساڑھے چار سالہ قید بھگت رہا ہے۔
6 جنوری 2021 کو ’’کیپیٹل ہِل‘‘ کی ہُلڑ بازی کا موازنہ پاکستان میں 9 مئی 2023 کے منصوبہ بند حملوں سے کیجئے۔ اہداف کیا تھے۔ کور کمانڈر ہاؤس لاہور، سی ایس ڈی لاہور، عسکری ٹاور لاہور، میانوالی ائیر بیس، پی اے ایف طیارے، جی ایچ کیو راولپنڈی، آرمی سپورٹس سٹیڈیم راولپنڈی، آئی ایس آئی دفاتر فیصل آباد، گوجرانوالہ چھائونی، کوئٹہ چھائونی، آئی ایس آئی حمزہ کیمپ راولپنڈی، ریڈیو پاکستان پشاور، شہدا کے مجسمے اور متعدد دیگر۔ اب تو ہر کہیں آگ ٹھنڈی پڑ چکی ہے۔ شہداء کے مجسموں کی راکھ میں بھی شاید ہی کوئی چنگاری بچی ہو۔ ناقابل فہم ریاستی روّیے کے باعث 9 مئی پس منظر میں جا چکا ہے۔ پی ٹی آئی کو اس حوالے سے کوئی مدافعانہ جنگ نہیں لڑنا پڑ رہی۔ اس کے وکلا کو فقط سائفر، القادر ٹرسٹ، توشہ خانہ اور عدّت جیسے معرکے درپیش ہیں۔
اُدھر 8 فروری کے انتخابات کا ناقوس بج رہا ہے۔ 9 مئی کی غارت گری پس منظر میں چلے جانے کے باعث پی ٹی آئی انتخابی اکھاڑے میں کھڑی، دامن چاک کیے، مانگ میں راکھ بھرے مظلومیت کا سیاپا کر رہی ہے۔
مشرقی پاکستان کے دورے کے اختتام پر 28 مارچ 1948 کو اپنے الوداعی ریڈیائی پیغام میں قائداعظم نے کہا تھا ’’کوئی بھی حکومت، جو حکومت کہلانے کے لائق ہو، ایک لمحے کے لیے بھی بے مہار اور غیر ذمہ دار عناصر کی غنڈہ گردی اور بپھرے ہجوم کی حکمرانی برداشت نہیں کر سکتی۔ اُسے تمام تر دستیاب وسائل اور ذرائع کے بل پر اس سے سختی کے ساتھ نبٹنا چاہیے۔‘‘
پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں 9 مئی جیسی ’’بے مہار غیر ذمہ دارانہ عناصر کی غنڈہ گردی اور ہجوم کی حکمرانی‘‘ نہیں دیکھی۔ لیکن اس معاملے میں سات ماہ کی خاموشی منظرنامہ بدل رہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو بھی عمومی ریاستی رنجش کا شکار وزرائے اعظم کی صف میں گنا جانے لگا ہے۔ خواجہ ناظم الدین سے نوازشریف تک، کسی کے نامۂِ اعمال میں 9 مئی جیسے انگارے نہیں ۔ کسی ایک کو بھی آئینی پارلیمانی طریقے سے معزول نہیں کیا گیا۔ سب جبر ناروا کا نشانہ بنے۔ کوئی حواس باختہ گورنر جنرل، کوئی رعونت شعار صدر اور کوئی خود پرست فوجی آمر کا نشانہ بنا۔ ’’انصاف کے زعم میں عمران خان کا اِن مظلوم وزرائے اعظم سے تقابل نامناسب ہے۔‘‘
معاملہ کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں۔ اگر مصلحت اور قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ 9 مئی کو قصّہ پارینہ سمجھتے ہوئے گہری قبر میں دفنا کر منوں مٹی ڈال دی جائے تو ایسا کر لیا جائے۔ تحریک انصاف کو جمہوری اقدار پر یقین رکھنے والی پاکباز پاک دامن جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے اور اُن اٹھارہ فوجی افسران کی سزائیں بھی منسوخ کر کے انہیں اپنے عہدوں پر بحال کر دیا جائے جنہیں 9 مئی کے حوالے سے لائقِ تعزیر سمجھا گیا۔ اور اگر 9 مئی واقعی وہی کچھ تھا جو پوری قوم نے دیکھا اور جو پوری قوم کو بتایا گیا اور اِس سے چشم پوشی لاقانونیت کی حوصلہ افزائی ہو گی تو پھر اس معاملے کو ’’عالم برزخ‘‘ کے سرد خانے میں ڈالنے کے بجائے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس نوع کے قومی معاملات کو بے یقینی کی صلیب پر لٹکائے رکھنا، ہمہ گیر سیاسی عدمِ استحکام اور انتشار کو جنم دیتا ہے جس کا مداوا کوئی انتخابی مشق بھی نہیں کر سکتی۔