"مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے۔لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے"

10:23 AM, 26 Dec, 2022

نیوویب ڈیسک

کراچی : خوشبو اور محبتوں کی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 28 برس بیت گئے ہیں۔ ان کی یادیں آج بھی ترو تازہ ہیں۔ 

پروین شاکر نئے لب و لہجہ کی تازہ بیان شاعرہ تھیں، جنھوں نے مرد کے حوالے سے عورت کے احساسات اور جذباتی مطالبات کی لطیف ترجمانی کی۔ ان کی شاعری نہ تو آہ و زاری والی روایتی عشقیہ شاعری ہے اور نہ کُھل کھیلنے والی رومانی شاعری۔ جذبہ و احساس کی شدّت اور اس کا سادہ لیکن فنکارانہ بیان پروین شاکر کی شاعری کا خاصہ ہے۔ ان کی شاعری ہجر و وصال کی کشاکش کی شاعری ہے جس میں نہ ہجر مکمل ہے اور نہ وصل۔ جذبہ کی صداقت،رکھ رکھاؤ کی نفاست اور لفظیات کی لطافت کے ساتھ پروین شاکر نے اردو کی نسائی شاعری میں اک ممتاز مقام حاصل کیا۔ بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔

پروین شاکر کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے، ان کے مربّی احمد ندیم قاسمی کا کہنا تھا کہ پروین کی شاعری غالب کے شعر "پھونکا ہے کس نے گوش محبت میں اے خدا * افسونِ انتظار تمنا کہیں جسے" کا پھیلاؤ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمنا کرنے ،یعنی انتظار کرتے رہنے کے اس طلسم نے ہومر سے لے کر غالب تک کی تمام اونچی،سچّی اور کھری شاعری کو قلب انسانی میں دھڑکنا سکھایا اور پروین شاکر نے اس طلسم کاری سے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

پروین شاکر خاتون شاعروں میں اپنے منفرد لب و لہجے اور عورتوں کے جذباتی اور نفسیاتی مسائل پیش کرنے کے باعث اردو شاعری کو اک نئی جہت دیتی نظر آتی ہیں۔ وہ بےباک لہجہ استعمال کرتی ہیں، اور انتہائی جرات کے ساتھ جبر و تشدد کے خلاف احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ وہ اپنے جذبات و خیالات پر شرم و حیا کے پردے نہیں ڈالتیں ۔ ان کے موضوعات محدود ہیں، اس کے باوجود قاری کو ان کی شاعری میں نغمگی،تجربات کی صداقت،اور خوشگوار تازہ بیانی ملتی ہے۔

پروین شاکر 24 نومبر 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل وطن بہار کے ضلع دربھنگہ میں لہریا سراے تھا۔ ان کے والد ،شاکر حسین ثاقب جو خود بھی شاعر تھے،قیام پاکستان کے بعد کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔پروین کم عمری سے ہی شاعری کرنے لگی تھیں، اور اس میں ان کو اپنے والد کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔ پروین نے میٹرک کا امتحان رضویہ گرلز اسکول کراچی سے اور بی اے سر سید گرلز کالج سے پاس کیا۔ 1972 میں انھوں نے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی، اور پھر لسانیات میں بھی ایم۔ اے پاس کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ عبداللہ گرلز کالج کراچی میں بطور ٹیچر ملازم ہو گئیں۔ 1976ء میں ان کی شادی خالہ کے بیٹے نصیر علی سے ہوئی جو ملٹری میں ڈاکٹر تھے۔ یہ شادی پروین کی پسند سے ہوئی تھی، لیکن کامیاب نہیں رہی اور طلاق پر ختم ہوئی۔ ڈاکر نصیر سے ان کا ایک بیٹا ہے۔ کالج میں 9 سال تک پڑھانے کے بعد پروین نے پاکستان سول سروس کا امتحان پاس کیا اور انھیں 1982 میں سیکنڈ سکریٹری سنٹرل بورڈ آف ریوینیو مقرر کیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اسلام اباد میں ڈپٹی کلکٹر کے فرائض انجام دئے۔ محض 25 سال کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ کلام "خوشبو" منظر عام پر آیا تو ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اس مجموعہ پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

پروین شاکر کی شخصیت میں بلا کی خود اعتمادی تھی جو ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔ اسی کے سہارے انھوں نے زندگی میں ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔ 18 سال کے عرصہ میں ان کے چار مجموعے خوشبو ،صدبرگ،خودکلامی اور انکار شائع ہوئے۔ ان کی کلیات ماہ تمام 1994 ء میں منظر عام پر آئی۔ 1985 میں انھیں ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ اور 1986 میں یو ایس آئی ایس ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ ان کو فیض احمد فیض انٹرنیشنل ایوارڈ اور ملک کے وقیع ایوارڈ "پرائڈ آف پرفارمنس" سے بھی نوازا گیا۔ 26 دسمبر 1994ء کو اک کار حادثہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔

پروین شاکر کے پہلے مجموعے "خوشبو" میں اک نو عمر لڑکی کے رومان اور جذبات کا بیان ہے جس میں اس نے اپنی ذاتی زندگی کے تجربات کو گہری فکر اور وسیع تخیّل میں سمو کر عورت کی دلی کیفیات کا انکشاف کیا ہے۔ان کے یہاں بار بار یہ جذبہ ابھرتا دکھائی دیتا ہے کہ وہ نہ صرف چاہے جانے کی آرزو کرتی ہیں بلکہ اپنے محبوب سے زبانی طور پر بھی اس کا اظہار چاہتی ہیں۔ پروین کی شاعری شباب کی منزل میں قدم رکھنے والی لڑکی اور پھر ازدواجی زندگی کے بندھن میں بندھنے والی عورت کی کہانی ہے۔ ان کے اشعار میں نئی پود کو اک شعوری پیغام دینے کی کوشش ہے، جس میں شادی کے غلط تصور اور عورت پر مرد کی اجارہ داری کو چیلنج کیا گیا ہے۔ پروین نے بار باردوہراے گئے جذبوں کو دوہرانےوالی شاعری نہیں کی۔ انھوں نے شرما کر یا جھجک کر اپنی مشرقیت کی لاج رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے شاعری سے ماورائیت کو خارج کر کےاردو کی نسائی شاعری کو اپنی بات اپنے انداز میں کہنے کا حوصلہ دیا۔ 

مزیدخبریں