ن لیگ کی طرف سے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کیلئے احتجاج،ہڑتال اور پھر لانگ مارچ کا اعلان اور حکومت کے خاتمے کیلئے حکمت عملی کی دھمکی نے طبل جنگ بجا دیا ہے اور ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہوتی نظر آرہی ہیں تاہم اس بار وکلا تنظیموں ، جماعت اسلامی اور دیگر چھوٹے سیاسی گروپوں نے لانگ مارچ میں ن لیگ کا ساتھ دینے کاابھی تک کوئی وعدہ نہیں کیا ۔ان میں سے بہت کا خیال ہے کہ ن لیگ کی قیادت قابل اعتماد نہیں ۔ البتہ پیپلز پارٹی کو کچھ امیدیں نظر آ رہی ہیں اور وہ برملا اس بات کا ااظہار کر رہی ہے کہ انہیں کہیں سے پیغامات وصول ہو رہے ہیںدوسری طرف یہ بھی لگتا ہے کہ حکمران پارٹی کے نزدیک عوام کی کوئی اہمیت نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرنے کو تیار نظر نہیں آتی جس سے عوام کو تکلیف کی بجائے ریلیف ملے یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو زیادہ تر ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اب تو کے پی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ عوام حکومتی اقدامات سے ناخوش ہیں ۔بہرحال پہلی مرتبہ ایسا ہواکہ حکومتی ارکان اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ واقعی پاکستان میں مہنگائی ہو چکی ہے لیکن یہ بات انہیں تب سمجھ آئی جب چڑیاں کھیت چگ چکی تھیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت اب منی بجٹ کو اسمبلی میں نہیں لانا چاہتی کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ کہیں اس کے اپنے ارکان ہی مخالف نہ ہو جائیں اس لئے حکومت منی بجٹ آردیننس کے ذریعے نافذ کرنے کا سوچ رہی ہے۔حکومت اس بات پر بھی خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں ان کی خراب کارکردگی کے باعث اسٹیبلشمنٹ مسلم لیگ ن سے کوئی ڈیل نہ کر لے اس سلسلے میں بہت سی باتیں اور دعوے تو مختلف تجزیہ نگار کر رہے تھے لیکن عمران خان کے آج کے بیان نے کہ نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کے لئے راستے نکالے جا رہے ہیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب حکومت کے سربراہ وہ خود ہیں تو چور دروازے سے راستہ کون نکال سکتا ہے۔
بہت سے معاملات میں اختلافات کے باعث حکومت اور ن لیگ نے ایک دوسرے پر الزامات کا جوسلسلہ شروع کر رکھا ہے اس بارے میں تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سیاست میں اٹھنے والا یہ طوفان کوئی نیا گل کھلا کر ہی رہے گا کیونکہ دونوں بڑی جماعتیں1990کی دہائی کی پوزیشنوں پر چلی گئی ہیں جس کا موجودہ حالات میں ملک متحمل نہیںہوسکتاجبکہ اس وقت ملک کو بے شمار اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاسی جماعتیں محاذ آرائی کے بجائے سرجوڑ کر بیٹھ جائیں اور پاکستان کو مسائل سے نکالنے کیلئے اقدامات کریں مگر افسوس سب سیاست چمکانے پر ہی اپنی طاقت صرف کررہے ہیں۔دونوں جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاست ترک کرکے ملکی اداروں کے استحکام کے بارے میں سوچیں۔ کیونکہ آنیوالا وقت انتہائی تلخ ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان کا باہمی تصادم تیسری قوت کیلئے از خود راہ فراہم کردے گا۔ اس طرح اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنے کے بجائے1990کی دہائی کی سیاست سے باہر نکل کر2021کے حالات کا صحیح ادراک کرنا ان جماعتوں کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ ورنہ پھر جمہوری اداروں کا خدا ہی حافظ ہے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق سیاسی میدان میںساڑھے تین سال سے زیادہ کی خاموشی کے بعد، پاکستان میں کچھ واضح اور ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو اگلے چند مہینوں میں سیاسی منظر نامے کو متاثر کر سکتی ہیں۔ حکمران جماعت، پاکستان تحریک انصاف نااہلی اور انحطاط سے دوچار ہے، اندھا دھند مہنگائی کرنے پر عوام اس سے ناراض ہے جس کا ایک مظاہرہ کے پی میں دیکھنے کو مل چکا ہے۔ووٹر بھی ناراض ہیں اور لیڈر بھی خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے امیدوار ہی اپنی پارٹی کے خلاف کھڑے تھے آخر اس کی کیا وجہ ہے یقینا یہ سوال اہم ہے ۔اس کا جواب بھی موجود ہے جس کا وزراء بھی اظہار کر چکے ہیں بیڈ گورننس اور مہنگائی اور مہنگائی کر کے عوام کا مذاق اڑانا کہ اگر دوائی تین روپے سے چھ روپے ہو گئی ہے تو کیا ہوا۔حکمران جماعت سے اس کے اتحادی بھی خوش نہیں اور پی ایم ایل کیو سمیت بہت سی اتحادی جماعتیں اپنے مستقبل کا بارے میں سوچ رہی ہیں کہ آئندہ انتخابات میں انکی حکمت عملی کیا ہونی چاہئے ۔عوام بے چارے پریشان ہیں کبھی بجلی نہیں کبھی گیس نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت بروقت گیس کا انتظام کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے گیس نایاب ہوتی جا رہی ہے ۔لیکن اس سلسلے میں محکمہ نے جو عوام کی آگاہی کا اقدام کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔