گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کا بین الاقوامی امیج نمایاں طور پر بہتر ہوا ہے، افغانستان بارے پاکستان کے مؤقف کو اب عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔نہ صرف پاکستان کی کاوشوں اور کارکردگی کو سراہا گیا بلکہ پاکستان کے مؤقف کی وسیع پیمانے پر حمایت بھی کی گئی۔ اس کا ثبوت کامیاب او آئی سی کانفرنس ہے جس میں پاکستان کے مؤقف کی وسیع پیمانے پر حمایت کی گئی۔ جبکہ او آئی سی اگلی کانفرنس بھی پاکستان میں مارچ 2022 میں منعقد ہو گی۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا درست ہے کہ پاکستان نے او آئی سی اجلاس میں اپنے اہداف حاصل کیے۔ وزیراعظم نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ او آئی سی کی اگلی کانفرنس پچھلی کانفرنس سے بہتر ہوگی۔ افغانستان کی صورتحال پر سعودی عرب کی تجویز اور پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی کا 17واں غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں ہواہے جس میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے شرکت کی۔او آئی سی کے کْل57 رکن ممالک میں سے 20 وزرائے خارجہ، 10 نائب وزرا یا وزیر مملکت نے اپنے ملکوں کی نمائندگی کی۔ اجلاس میں اقوام متحدہ، یورپی یونین، عالمی مالیاتی اداروں، علاقائی و بین الاقوامی تنظیموں، جاپان، جرمنی اور دیگر نان او آئی سی ممالک کے نمائندوں بھی شریک تھے۔ کانفرنس کا مقصد افغانستان میں پیدا ہونیوالے انسانی بحران پر بات چیت کرنااور اس کی خوراک کی قلت کا شکار نصف سے زائد آبادی کی امداد کے لیے راستے کھولنے کا تعین کرنا تھا۔ خود اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت افغانستان میں تین اعشاریہ دو ملین بچے غذائی قلت کے دہانے پر ہیں۔او آئی سی کے زیرانتظام افغانستان میں امداد پہنچانے کے لیے اسلامک ڈویلپمنٹ بینک میں ایک ہیومینیٹرین ٹرسٹ فنڈ اور فوڈ سکیورٹی پروگرام کا قیام پر بھی اتفاق کیا گیا۔لیکن سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ عالمی پابندیوں کے ہوتے ہوئے یہ امداد افغانستان کیسے بھیجی جا سکتی ہے؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کو امداد فراہم کرنے کی قرارداد منظور کی ہے جس میں بنیادی ضروریات فراہمی کی حمایت کی گئی ہے جبکہ امریکا نے امداد کی فراہمی میں آسانی کیلئے طالبان کے ساتھ کاروبار کرنے والے امریکی اوراقوام متحدہ کے اہلکاروں کو امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ اجلاس میں افغانستان میں امداد پہنچانے کیلئے ایسے راستے تجویز کیے گئے جو ملک کی عالمی پابندیوں میں جکڑی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنائے جا سکیں اور عالمی برادری سے امداد اور تعاون سے متعلق اپیل کی گئی۔پاکستان حکومت عالمی برادری پر زور دے رہی ہے کہ وہ طالبان اور افغانستان کے لوگوں کے درمیان فرق کریں۔بدقسمتی سے ماضی کے مختلف ادوار میں خارجہ پالیسی کو ذاتی مفادات کیلئے قومی مفاد کے خلاف بنایا جاتا رہا اور حکمرانوں نے غیر ملکی امدادحاصل کرنے کیلئے ملک کی ساکھ کو داغدار کیا۔ اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کے بعد افغان عوام کی حمایت میں دو اہم پیش رفت ہوئی ہیں پاکستان نے زور دیا ہے کہ یقینی بنایا جائے کہ پابندیاں افغانستان کے سکولوں، ہسپتالوں اور عوام تک پہنچنے والی امداد کے راستے میں حائل نہ ہوں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں امداد کے لیے بعض مسلم ممالک مالی مدد کا اعلان کریں گے تاہم خود پاکستان اورسعودی عرب کے علاوہ کسی بھی ملک نے امداد کا اعلان نہیں کیا۔ سعودی نے افغانستان کی عوام کی مدد کے لیے ایک ارب ریال یعنی 265 ملین ڈالر امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان اس سے قبل تقریباً 30 ملین ڈالر امداد کا اعلان کر چکا ہے۔
افغانستان پر پابندیوں کا آغاز 1999 سے ہوا۔2001 میں امریکہ اور اتحادی ممالک کی جانب سے افغانستان پر حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ان پابندیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور اب پابندیاں افراد اور گروپس کے خلاف عائد ہونا شروع ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج افغانستان کی عبوری حکومت میں موجود متعدد افراد پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے طالبان پر 2001 کے بعد سخت پابندیاں عائد کی گئیں جو آج بھی موجود ہیں۔ کابل میں حکومت گرانے اور اقتدار پر قبضے کے بعد امریکہ نے اپنے ملک میں موجود افغانستان کے تمام اثاثے، جن کے مالیت تقریباً ساڑھے نو ارب ڈالر ہے، منجمد کر دیے، جس کے بعد عالمی امداد پر چلنے والے ملک میں بینکنگ کا نظام مکمل طور پر ختم ہو گیا جبکہ خود افغانستان میں طالبان نے ڈالرکے بجائے افغان کرنسی استعمال کرنے کا حکم دیا۔ دوسری طرف طالبان حکومت سے جڑی پابندیوں، سکیورٹی خدشات کے پیش نظر امدادی اداروں نے بھی اپنی سرگرمیاں ختم کر دیں۔ اس کی بڑی وجہ وہ خدشات ہیں کہ عالمی پابندیوں کی صورت میں بھی فنڈز کی منتقلی یا انہیں طالبان کے زیرانتظام چلنے والے ملک میں بھیجنے کی صورت میں خود ان اداروں کو اپنے ملکوں میں سخت احتسابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم امریکہ نے ستمبر میں پہلی بار افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد بھی امدادی سامان مہیا کرنے کیلئے کم از کم دو جنرل لائسنسز کا اعلان کیا ہے، جن کے مطابق مختلف امریکی اور امریکہ میں قائم عالمی امدادی ادارے افغانستان میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کر سکتے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم وزرائے خارجہ کانفرنس بھی افغانستان میں امدادی فنڈز پہنچانے کے لیے ایک ایسا ذریعہ تلاش کرنے کی کوشش ہے جس پر دنیا کے دیگر ممالک اور امدادی ادارے مطمئن ہوں۔کچھ ایسے ممالک بھی ہیں، جو عطیات براہ راست نہیں دینا چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسا میکنزم ہو جو وہ سہولت کے ساتھ استعمال کریں۔فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک میں ایک اکاؤنٹ افغانستان کی امداد کے لیے مختص کیا جائے،جہاں دیگرممالک اور عالمی ادارے رقوم منتقل کریں۔ او آئی سی براہ راست کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتی مگر وہ اقوام متحدہ کی توجہ اسطرف دلا سکتی ہے۔ پہلے امدادی فنڈ قائم ہو گا، اس سے متعلق قانون سازی کی جائے گی اور ایسے قواعد و ضوابط طے کیے جائیں گے، جو رکن ممالک اور عالمی امدادی اداروں کے قوانین سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک اس فنڈ میں اپنا حصہ ڈالیں گے اور اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ یہ فنڈ کیسے لوگوں تک پہنچے گا، کیسے اور کس چینل کے ذریعے منتقل ہوگا، کس علاقے اور کس مد میں عوام تک پہنچایا جائے گا۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ یہ فنڈ افغانستان میں قائم حکومت کو دیا جائے۔ یہ طریق کار تمام ممالک کے اتفاق رائے سے ہی وضع کیا جائے گا۔ طالبان نے دوحہ معاہدے کے تحت کچھ وعدے کیے تھے، جن پر عالمی سطح پرتسلی بخش عملدرآمد ضروری ہے۔او آئی سی کے اجلاس سے افغان طالبان کو بھی یہ ایک پیغام گیا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی لے کر آئیں۔
افغانستان کی خراب صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہمسایہ ممالک ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ملک کوشش کر رہے ہیں کہ پابندیاں نرم کی جائیں یا افغان عوام کے لیے امداد جلد از جلد یقینی بنائی جائے۔ انسانی بحران بدتر ہونے کی صورت میں یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمسایہ ممالک میں مہاجرین کی تعداد بڑھ سکتی ہے یا وہاں سکیورٹی خطرات پیدا ہو سکتے ہیں جو ان ممالک کو متاثر کرسکتے ہیں۔