اقبال بہت کچھ کہہ کر رخصت ہوئے۔ کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں، آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ۔ جو تصاویر انہوںنے دھندلی دکھائی تھیں، وہ ایک ایک کرکے (ہمہ نوع) کھلتی چلی جا رہی ہیں۔ صرف جہازوں ٹرینوں کی ہی برق رفتاری نہیں، وقت اور حالات وواقعات کی برق رفتاری ہوش گم کیے دیتی ہے۔ ایک طرف افغانستان میں 15 اگست 2021ء میں تاریخ نے جو ورق الٹا، اس نے پوری دنیا پر سکتہ طاری کردیا۔ امریکا اچانک رولر کوسٹر کے برق رفتار جھولے پر بیٹھا گھومتے دماغ کے ساتھ 15 دن جھٹکے کھاتا 31 اگست کو امریکا جا اترا واپس۔ اب تک سبھی ادارے، تھنک ٹینک، دانشور، سیاست دان بیٹھے جمع تفریق کر رہے ہیں۔ ’دی نیویارکر‘ امریکا کا معتبر ماہانہ میگزین، 10 دسمبر 2021ء کی طویل رپورٹ میں غیرشائع شدہ دستاویزات کے ایک خزانے کی بنیاد پر افغانستان میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کو غلط اندازوں، خود فریبی، زعم اور گھمنڈ کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ خود امریکی حکومت نے ایک کمیشن قائم کیا ہے اعلیٰ ترین سطح پر جو ایک سال میں شکست کے اسباب پر عبوری رپورٹ اور تین سال میںمفصل رپورٹ دے گا۔ اگرچہ 20 سالوں میں امریکا نے کاغذ کا زیاں بھی اسلحے سے کچھ کم نہ کیا! رپورٹیں بناتے، مٹاتے، سنوارتے پھیلاتے ہر ادارے نے اس جنگ پر کیا کچھ نہ لکھ مارا۔ طالبان ہر مادی، کاغذی، برقی، عسکری سہولت سے عاری قطار اندر قطار چیونٹی کی طرح محنت کرتے ہاتھی کے ہر بن مو میں گھس گئے اور اسے چاروں شانے چت کردیا۔ زمینی آفت اگر یہ بنے تو اتنی ہی آسمانی آفات اب پے درپے ٹوٹی پڑ رہی ہیں۔ کیا امریکا ناکام ہوگیا؟ اسلام پر عسکری یلغار میں بدترین ذلت آمیز شکست کھانے والے مغرب نے حرمین شریفین کی پاکیزہ سرزمین، اسلام کے قلب میں ثقافتی، تہذیبی تند وتیز حملہ کرکے امت کو روحانی سطح پر لہولہان کرکے رکھ دیا ہے۔ سعودی عرب پر لگائے یہ چرکے 2019ء سے شروع ہونے والے موسیقی کے میلوں کی صورت ظاہر ہونے لگے۔ 2021ء میں 19 دسمبر سے چار روزہ موسیقی کی گھن گرج، رقص وسرود، مکمل اختلاط، عیش وطرب، مارجو آنا (منشیات کی قسم) اور نشے میں لہکتے جوانوں کی ہمہ نوع بدلباسی سامنے آئی۔ میلے نے پورے عالم اسلام کی ساری حدیں، ریکارڈ توڑ ڈالے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
جس سرزمین سے روس کے خلاف جہاد میں رئیس زادے اپنی دنیا تج کر آخرت کے سوداگر بن کر سر کٹانے افغانستان جا اترے تھے آج اسی سرزمین پر حیا باختگی کے اس بھاری بھرکم فیسٹیول میں 7 لاکھ 32 ہزار نوجوان لڑکے لڑکیاں 4 دن رقصاں رہے۔ صورتیں، سوانگ، حلیے، رنگ سبھی شیاطین برسرزمین ناچ رہے تھے۔ دل ہر ذرہ میں غوغائے رستا خیز ہے ساقی! ریاض کے نواح میں برپا اس طوفان کا نام MDL BEAST SOUND STORM ، یعنی مڈل ایسٹ کی بجائے مڈل بیسٹ (درندہ، وحشی جانور/ قابل نفرت انسان لغت میں) آواز کا طوفان رکھا ہے۔ یقینا روحانیت اور پاکیزگی کی طویل تاریخ کی امین سرزمین پر تیز ترین موسیقی پر رقصاں حرص وہوس کی درندگی کا طوفان برپا کیا گیا۔ اس میں دنیا بھر کے نامی گرامی بھانڈ، گویے نچیے، ماڈل اکٹھے کیے گئے۔ زخموں پر نمک پاشی کا سامان مزید یہ تھا کہ بلوم برگ 19 دسمبر کی رپورٹ میں لکھا ہے: ’یہ سعودی عرب ہے! یہ صرف اس وقت پتا چلا جب 5 منٹ کی ’اسلامی پکار‘، اذان کے لیے وقفہ ہوا، جس کے نتیجے میں پھٹی (فیشن کی بنا پر)، پھنسی جینز پہنے نوجوان (مرد وزن) خاموش ہوگئے۔ 15 منٹ کے اندر مذہبی فریضہ (نماز) ادا ہوگیا اور ہزاروں لاکھوں (روزانہ تقریباً ڈیڑھ دو لاکھ حاضری تھی) عیش وطرب منانے کو لوٹ آئے۔ جہاں 5 سال پہلے مرد وزن کا مخلوط رقص سوچا بھی نہ جاسکتا تھا چند ہی سالوں میں محمد بن سلمان نے ممکن بنا دیا۔ عورتوں کی ڈرائیونگ کی اجازت ملی، اختلاط کی ممانعت کا خاتمہ ہوا۔ مذہبی پولیس جو سڑکوں گلیوں میں ریسٹورانٹوں کو موسیقی چلانے پر جرمانے کرتی تھی، ختم کردی گئی۔ ریاض کے اس موسیقی میلے کو کامیاب بنانے کے لیے باقی سبھی سرگرمیاں بند کردی گئی تھیں۔ تنقید کا یارا کسی کو نہیں! شہزادہ فہد السعود جو اس تماشے کے مطابق ملبوس تھے، انہوںنے اسے ترقی کا نام دیا۔‘ مغرب، اگرچہ ترقی کے ان اعلیٰ ترین نمونوں کے علی الرغم افغانستان کے پیوندزدہ، پسماندہ سپاہیوں کے ہاتھوں زخم چاٹتا گھر لوٹا۔ ترقی کی قلعی کھل گئی! صحابہؓ کے دور میں بھی ایران، روم کی بڑی طاقتوں کے برج اسی ریاض کے گرد ونواح سے اٹھنے والے خرقہ پوشوں نے الٹ کر رکھ دیے تھے۔ ان کی موجودہ نسل بہک بھٹک کر شیطانی گردابوں میں جا پھنسی۔
متاع دین ودانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی!
آج وہاں گینز بک ورلڈ ریکارڈ کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑتا سب سے بڑا اسٹیج ناچنے مٹکنے کو بنایا گیا ہے! فاعتبروا!
پاکستان اس مذکورہ بالا ترقی میں کچھ کم نہیں۔ پاکستانی سیاست میں ن لیگ کا بھاری بھرکم خاندان جلاوطنی کے دور میں بادشاہت، شہزادگی کی خوبو وہاں سے لے آیا تھا۔ مسائل میں گھرا پاکستان کا ہر شعبہ، ہر انسان، اور خود مقدمات میں الجھا نوازشریف کا پورا خاندان۔ تاہم ان کے شہزادے جنید صفدر کی شادی ایک طویل دورانیے کی گلیمر بھری لامنتہا فلم بن کر پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی اسکرین، سوشل میڈیا، ٹی وی چینلز اور اخبارات پر ڈھول پیٹتی رہی۔ 23 اگست کو لندن میں شروع ہوئی۔ دسمبر کے اواخر کو جا پہنچی۔ بڑے بڑے ڈریس ڈیزائنروں کے نام، جنہوںنے جلوہ گران شریف خاندان کا ایک ایک ٹانکا بہ صد اہتمام بھرا تھا۔ قندیلوں کی طرح جگمگاتے بھاری بھرکم پہناوے۔ شادی کیا تھی، اس میں فیشن
شوز، ریمپ پرکیٹ واک، محافلِ موسیقی، انڈین فلمی گانوں کے تڑکے، ماڈلنگ سبھی کچھ یک جا تھا۔ مریم نواز کے لیے ان کے فوٹو گرافر کا یہ جملہ تعریف وتحسین نہیں، سیاسی قیادت کی تمنائی خاتون کے لیے حیا سوز ہے۔ ’مریم نواز ایک ماڈل ہوسکتی ہیں۔ کیمرہ انہیں بے پناہ پسند کرتا ہے۔‘ قیادت کے منصب کے لیے عدالت در عدالت حق مانگتے خاندان نے معاشرے کو شادی بیاہ کی رسومات میں کروڑوں کے اسراف کی راہ دکھائی۔ پس پردہ بے نامی اکاؤنٹس، آف شور کہانیاں، ہائی پاور کرپشن کی سرسراتی داستانوں سے عہدہ براء تو ہو لیتے۔ پھر قوم کی بیٹی، بیٹے نگاہ خیرہ کن رنگ برنگی تقریبات میں سرتال کے جادو جگاتے، 15 دن کی یہ بے بہا لگرژی میں پانی کی طرح پیسہ بہاتے تو کم انگلیاں اٹھتیں۔ قوموں کی ترقی کے یہ تصورات اگر سرزمین حرم اور ایٹمی مملکت خداداد کے بن چکے ہیں تو امت کا اللہ ہی محافظ ہے۔ ہم نے لٹیا ڈبونے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ فلموں ڈراموں کی مصنوعی دنیا میں جی بس رہے ہیں۔ یہی ہمارا مبلغ علم اور سب سے بڑا غم رہ گیا ہے۔ ملک کا خدانخواستہ دیوالیہ پٹ چلا ہے ہمیں ڈھول بتاشوں سے فرصت نہیں۔ تینوں بڑی پارٹیاں ایک ہی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ چند دن پہلے وزیر اطلاعات کی اہلیہ کے تیار کردہ عروسی ملبوسات پر جلوؤں کا میلا لاہور میں سجا!
سینیٹر مشتاق احمد (جماعتِ اسلامی) نے ایک اور راز کھلوا دیا۔ وہ یہ کہ پاکستان انصاف کی فراہمی میں 180 ممالک میں سے 124 ویں نمبر پر ہے۔ ججوں کی مراعات البتہ دنیا کے ٹاپ سے دسویں نمبر پر ہیں۔ نظر اٹھاکر افغانستان میں فراہمیٔ انصاف کی شفافیت، سرعت اور قہوہ پیتے درخت تلے بیٹھے شریعت کی بنیاد پر فوری فیصلے دینے والوں کو دیکھ لیجیے۔ فیصلے کے بعد مدعی اور مدعیٰ علیہ صلح صفائی سے گلے مل کر رخصت ہو لیتے ہیں۔ جرائم کی شرح کمترین سطح پر چلی گئی ہے۔ تمام تر معاشی پابندیوں، سخت ترین معاشی حالات، دبوچے قومی خزانے (امریکا کے ہاتھوں) کے باوجود کرنسی ہمارے مقابلے میں بدرجہا مستحکم ہے۔ امن وامان ہے۔ عورت محفوظ ومامون ہے۔ مغرب کی سوئی عورت کی آزادی پر اٹکی ہے۔ اصل مسئلہ عورت کے لباس کے زیادہ ہونے کا ہے۔ بازاروں کے (عورت نظر نہ آنے پر) ویران ہو جانے کا ہے۔ باوجودیکہ وہ ملازمت بھی کر رہی ہے، تعلیم بھی جاری ہے۔عزت محفوظ ہے۔ امریکا یورپ کے ہراسمنٹ اور عورت پر حملے کے اعداد وشمار سامنے لائیے، موازنہ حقائق کھول دے گا۔ عورت سے حقیقی ہمدردی ہے تو افغان اثاثے انہیں لوٹاؤ تاکہ بھوک سے بلکتی ماں اور بچہ آسودہ ہوں۔ افغانستان کو تسلیم کرکے سفارتی تنہائی اور معاشی ناکہ بندی ختم کرو۔ دنیا بھر کے مسلم عوام خود اپنے مسلمان بھائیوں بہنوں بچوں کی امداد کے لیے کافی ہوںگے۔ کیا غضب ہے کہ بھوکے مسلمان کو نوالہ دینا دہشت گردی کی مالی امداد (ٹیرر فنانسنگ) کہلائے۔ مودی کے جنونی ہندو جتھے، اسرائیل کی مسلم کش ریاست، برما سری لنکا کے بدھ پوری دنیا سے امداد پاکر ظلم وقہر کی حدیں توڑتے رہیں۔
او آئی سی کا حالیہ اجلاس خوش آیند رہا۔ افغانوں سے ہمدردی، معاشی امداد کی تجاویز اور وعدے تو ہیں مگر ضرورت فوری امداد کی تھی۔ ٹرسٹ فنڈ مارچ تک متحرک ہوگا۔ سردی اور غذائی کمی میں افغان سسکتے رہیںگے؟ کون جیتا ہے …! او آئی سی کا ریکارڈ فلسطین کشمیر پر قابل ِرشک نہیں؟ افغان وزیر خارجہ نے بند سیشن میں اپنا مؤقف بھی پیش کیا ہے۔ اللہ کرے کہ عملاً یہ سب ممکن ہوتاکہ پاکستان گزرے بیس سالوں کا کفارہ ادا کر پائے ۔
میں نے یہ قصہ کہا اس لیے ہو کر مجبور
جو ترا فرض ہے وہ یاد دلاؤں تجھ کو