خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں تحریکِ انصاف تقریباََ ’’لَم لیٹ‘‘ ہوگئی اور بازی لے گئے مولانا فضل الرحمٰن۔ اِن انتخابات میں تحریکِ انصاف کو 64 میں سے صرف 14 سیٹیں ملیں اور باقی اپوزیشن کی جھولی میں جا گریں۔ ڈالے گئے کل ووٹوں میں سے 2,36,178 ووٹ پی ٹی آئی کو ملے اور 10,34,481 اپوزیشن کو۔ گویا اِن بلدیاتی انتخابات میں جو پی ٹی آئی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور جہاں اِسے صوبائی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت ملی، وہاں اِس کے خلاف تقریباََ ساڑھے چار گُنا زیادہ ووٹ پڑے۔ میئر کی 4 سیٹوں میں سے 3 مولانا فضل الرحمٰن کے حصّے میں آئیں، ایک اے این پی لے اُڑی اور پی ٹی آئی مُنہ دیکھتی رہ گئی۔ یہ اُن 17 اضلاع کے بلدیاتی انتخابات کا نتیجہ ہے جہاں 2018ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کی غالب اکثریت تھی۔ باقی 18 اضلاع کے بلدیاتی انتخابات جنوری میں ہونے جا رہے ہیں۔ اِن اضلاع میں ہزارہ ڈویژن، ایبٹ آباد اور مانسہرہ نوازلیگ کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں جبکہ دیر اور سوات میں جماعت اسلامی بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اِس لیے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی کی اُمید رکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف ہے۔
سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اِس بُری ہزیمت کا سامنا کرنے کی وجہ کیا ہے؟۔ تحریکِ انصاف کے رَہنماء یہ کہتے پائے گئے کہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی وجہ سے بلدیاتی الیکشن میں شکست ہوئی۔ شبلی فراز نے کہا کہ پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی ہی نے ہرایا۔ مطلب یہ کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کا مقابلہ بھی اُن اُمیدواروں کے ساتھ تھا جنہوں نے ٹکٹ نہ ملنے پر بطور آزاد اُمیدوار انتخاب میں حصّہ لیا اور جیت گئے۔ شبلی فراز نے دراصل اپنی شرمندگی ٹالنے کابہانہ تراشاہے کیونکہ اِن انتخابات میں بہت کم آزاد اُمیدواروں کو کامیابی ملی اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انتخابات خواہ کسی بھی سطح کے ہوں، آزاد اُمیدوار بہرحال حصّہ لیتے ہی ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ خاندانوں کو نوازا گیا جس کی وجہ سے شکست ہوئی۔ بلدیاتی انتخابات میں پشاور، مردان، صوابی، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خاں اور دیگر اضلاع میں شکست کے ذمہ داروں کا تعین کرکے رپورٹ وزیرِاعظم کو بھیج دی گئی ہے اور اِس رپورٹ میں یہی لکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے وزراء نے مَن مرضی کے اُمیدواروں کو ٹکٹ تقسیم کیے جس کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس رپورٹ کے مطابق شکست کے ذمہ دار گورنر، سپیکر اسد قیصر، 4 صوبائی وزراء اور 11 ارکانِ اسمبلی کو قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی محض بہانہ ہی ہے کیونکہ موروثی سیاست کے خلاف بلندبانگ دعوے کرنے والے وزیرِاعظم کی نظروں کے سامنے پی ٹی آئی کے رَہنماء اپنوں کو نوازتے رہے۔2018ء کے انتخابات سے لے کر ضمنی
انتخابات تک کب تحریکِ انصاف نے اپنوں کو نہیں نوازا؟۔آج اگر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وفاقی وزیرِدفاع پرویز خٹک، وفاقی وزیرِ مملکت علی محمد خاں، وزیر امورِ کشمیر علی امین گنڈاپور، صوبائی وزیرِتعلیم شہرام ترکئی، وفاقی وزیرِ پانی وبجلی عمر ایوب، وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شبلی فراز، ایم این اے حبیب اللہ کُنڈی، ایم این اے انور تاج، سبھی نے اپنے اپنے علاقوں میں اپنے پسندیدہ اُمیدواروں کو ٹکٹوں سے نوازا تو چیں بچیں کیوں؟َ۔ اگر پی ٹی آئی کے رَہنماؤں نے واقعی مَن مرضی کے فیصلے کیے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ 22 سالہ جدوجُہدکے باوجود ابھی تک تحریکِ انصاف ایک جماعت نہیں بلکہ ایسا ہجوم ہے جسے یا تو اپنی قیادت کی مطلق پرواہ نہیں یا پھر قیادت بے خبر۔
ہمارے خیال میں شکست کی وجہ ٹکٹوں کی غلط تقسیم ہے نہ خاندانوں کو نوازنا اور نہ ہی تحریکِ انصاف کی اندرونی لڑائیاں۔ وجہ صرف قیادت کی نا اہلی جس نے قوم کو سبزباغ دکھائے اور کیے گئے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی پورا نہ کیا۔ اب وزیرِاعظم نے پاکستان میں قائم کی گئیں تحریکِ انصاف کی تمام تنظیموں کو فارغ کر دیا ہے۔ اِن تنظیموں کا چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی بھی فارغ ہوگیا جسے 2019ء سے ڈی فیکٹو وزیرِاعظم سمجھا جا رہا تھا۔ اب 21 رُکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ کرے گی۔ دنیاجہان کا اصول تو یہی ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اِس بُرے طریقے سے ہارتی ہے تو اُس کا سربراہ مستعفی ہو جاتا ہے۔ وزیرِاعظم صاحب، جنہوں نے عمرِ عزیز کا زیادہ حصّہ کرکٹ کے میدانوں میں گزارا، خوب جانتے ہیں کہ جب ٹیم متواترہارتی ہے تو سب سے پہلے کپتان تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہاں معاملہ بالکل اُلٹ کہ کپتان موجود، پوری ٹیم فارغ۔ وزیرِاعظم گزشتہ 3 سالوں کے دوران ترقیاتی منصوبوں کی طرف دھیان دینے کی بجائے صرف اپوزیشن ہی کو رگیدتے رہے۔ قوم بھوکوں مرتی رہی، معیشت برباد ہوتی رہی، ڈالر آسمانوں کو چھوتا رہا لیکن وزیرِاعظم صرف اپوزیشن کو لعن طعن کرتے رہے اور حواری یہ ثابت کرنے میں مگن رہے کہ سب کیا دھر ا پچھلی حکومتوں کا ہے۔ جب کارکردگی کا یہ عالم ہو تو پھر ایسا ہی نتیجہ اظہرمِن الشمس کہ اب کی بار امپائر بھی نیوٹرل تھے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہا درست ثابت ہو رہا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں زورآوروں کا دستِ شفقت عمران خاں کے سر پر تھا جس کی وجہ سے اُنہیں صوبائی اسمبلی میں دوتہائی اکثریت ملی۔ اب جبکہ امپائر نیوٹرل ہو گئے تو تحریکِ انصاف کی حقیقت کھُل کر سامنے آگئی۔ بلدیاتی انتخابات میں شکست کی دوسری بڑی وجہ مہنگائی کا عفریت ہے جسے قابو میں لانا حکمرانوں کے بَس کا روگ نہیں اور شاید اِسی وجہ سے امپائر بھی نیوٹرل ہوئے۔ یوں تو وزیرِاعظم نے فرمایا کہ پاکستان دنیا کاسستا ترین ملک ہے لیکن اِس پراپیگنڈے کا کسی پر بھی اثر ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ جو سامنے ہے وہ بالکل اُلٹ۔ بین الاقوامی سرویز بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چوتھا ملک ہے۔ یہ بھی عین حقیقت کہ نوازلیگ کے دَورِحکومت میں مہنگائی 4 فیصد تھی اور بقول ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل اِس وقت مہنگائی 11.5 فیصد۔ یہ بجا کہ بابا رحمتے نے وزیرِاعظم کو صادق وامین کا سرٹیفیکیٹ دے رکھا ہے لیکن سپریم کورٹ کے سابق جسٹس اور تحریکِ انصاف کے سابق رُکن جسٹس وجیہ الدین احمد نے کہا کہ یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ عمران خاں دیانتدار آدمی ہے کیونکہ اُن کے گھر کے اخراجات بھی اُن کے قریبی دوست جہانگیر ترین اُٹھایا کرتے تھے اور وقت نے ثابت کیا کہ جہانگیر ترین چینی سکینڈل میں ملوث تھے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے کہا گیا کہ جسٹس وجیہ الدین کے اِس بیان پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جائے گالیکن جب جسٹس وجیہ الدین نے کہا کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں تو حکومتی حلقوں میں خاموشی طاری ہو گئی جو تاحال قائم ہے۔ تحریکِ انصاف ہی کے رُکنِ قومی اسمبلی نور عالم خاں نے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا ’’کون کہتا ہے کہ ملک میں کرپشن نہیں ہے؟۔ آپ عوام کو ایک یا دو بار دھوکہ دے سکتے ہیں، تیسری بار لوگ آپ کو مسترد کر دیں گے۔ لوگوں نے پی ٹی آئی کو سستی چینی، سستے آٹے، سستے پٹرول اور نوکریوں کے لیے ووٹ دیا تھا جن کی قیمتیں کئی گُنا بڑھ چکیں‘‘۔ پی ٹی آئی بلوچستان کے صدر یار محمد رِند نے کہا ’’7 سال سے پی ٹی آئی میں ہوں، لوگ کارکردگی دیکھتے ہیں، وعدوں کا پورا ہونا دیکھتے ہیں۔ افسوس سے کہوں گا کہ ہم ایک پارٹی نہیں بن سکے۔ کے پی کے میں جو کچھ ہوا وہ نوشتۂ دیوار تھا‘‘۔اِن بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمشن بھی مکمل طور پر غیرجانبدار تھا اِس لیے جہاں کہیں ڈسکہ جیسی ’’دُھند‘‘ نظر آئی، وہیں فوری ایکشن ہوا۔ یہ الگ بات کہ نہ تو وزیرِاعظم نے الیکشن کمشن کو پرکاہ برابر حیثیت دی اور نہ ہی حواریوں نے۔ الیکشن کمشن نے وزیرِاعظم کو منع کیا کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے دوران نہ تو پشاور جائیں اور نہ ہی وہاں جا کر کسی ترقیاتی منصوبے کا اعلان کریں کیونکہ ایسا کرنا الیکشن کمشن کے ضابطوں کی خلاف ورزی ہو گی لیکن وزیرِاعظم پشاور گئے بھی اور وہاں جا کر صحت کارڈ کااعلان بھی کیا۔ اِسی طرح علی امین گنڈا پور جیسے وزیروں نے الیکشن کمشن کے ضابطوں کی دھجیاں بکھیریں۔ اُنہیں نوٹس ملے، جرمانے ہوئے لیکن پھر بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے۔ الیکشن کمشن کے ضابطوں کی دھجیاں بکھیرنے کے باوجود تحریکِ انصاف کو اپنی بُری کارکردگی کی وجہ سے اِس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام باشعور ہو چکے۔اِسے کہتے ہیں جیسی کرنی، ویسی بھرنی۔