سکھر: سابق وزیر داخلہ اور پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما رحمان ملک نے انکشاف کیا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو پرخود کش حملے کے لیے دو دہشت گرد آئے تھے، جن میں سے ایک اکرام اللہ نامی خود کش حملہ آور آج بھی زندہ ہے۔
سکھر ایئرپورٹ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اکرام اللہ نے حملے کے بعد واپس جا کر بیت اللہ محسود کو رپورٹ دی تھی کہ اس نے بینظیر بھٹو پر گولی چلائی تھی۔انہوں نے انکشاف کیا کہ اکرام اللہ اس وقت افغانستان کے علاقے قندہار میں موجود ہیں اور مطالبہ کیا کہ افغان صدر اسے گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کریں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو دہشت گردی کے خلاف باتیں کرتے ہیں، بتائیں کہ بینظیر حملے کے سہولت کار عبید الرحمن کو سی آئی اے نے ڈرون حملہ کرکے کیوں مارا۔سابق وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ پرویز مشرف اگر سچے ہیں تو وہ پاکستان آکر اپنے کیسز کا سامنا کریں، ہم بینظیر بھٹو کے قاتلوں کا پیچھا کریں گے اور انہیں نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی نہیں دی حالانکہ حملے کے ایک روز قبل ان کے ڈی جی آئی ایس آئی نے آگاہ کیا تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے جب ان کے پاس اطلاع تھی تو پھر ان کو سیکورٹی کیوں نہیں دی گئی۔پاکستان پیپلز پارٹی نے بینظیر بھٹو کے تمام قاتلوں کی نشاندہی کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے واقعے کے بعد جائے وقوع سے ایک خط ملا تھا اور حکومت کو اسے پبلش کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس خط میں اسامہ بن لادن کو ٹی ٹی پی پاکستان کی جانب سے بینظیر کی شہادت پر مبارکباد دی گئی تھی، ان کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت گاڑی میں پانچ لوگ موجود تھے صرف سوالات مجھ سے کیوں پوچھے جارہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نواز شریف کی زندگی ایک جیسی ہوگئی ہے ایک پاناما میں پھنسا ہوا ہے تو دوسرا ایشیا میں پھنسا ہوا ہے۔