کراچی: پھولوں اور خوشبوﺅں کی شاعرہ اور لاکھوں دلوں میں گھر کرنے والی پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 22برس بیت گئے ۔ اردو شاعری میں ان کا کلام ایک خاص انفرادیت کا حامل ہے۔
پروین شاکر 24نومبر 1952ءکو کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ان کے والد کا نام شاکر حسین تھا۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبانی دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں انہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔
کراچی کے علاقے پرانا حاجی کیمپ میں لکڑی کے گودام میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا 1970ءمیں ان کا پہلا مجموعہ کلام خوشبو شائع ہوا، اس مجموعہ کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعراءکرام میں ہونے لگا، اپنی اولین کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی پروین کی شاعری ادبی رسالوں کے ذریعے اپنے مداح پیدا کر چکی تھیں۔ خوشبو کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ پہلی اشاعت کے چھ ماہ بعد ہی اس کا دوسرا ایڈیشن چھاپنا پڑا۔ خوشبو کے بعد پروین شاکر کے کلام کے کئی اور مجموعے صد برگ، خود کلامی، اور انکار شائع ہوئے، ان کے کلام کی کلیات ماہ تمام بھی شائع ہو چکی ہے، جبکہ ان کا آخری مجموعہ کلام کف آئینہ ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔ آج بھی اردو کی مقبول ترین شاعرہ سمجھی جاتی ہیں۔ پروین شاکر نے کئی اعزازات حاصل کیے تھے جن میں ان کے مجموعہ کلام خوشبو پر دیا جانے والاآدم جی ادبی انعام، خود کلامی پر دیا جانے والا اکادمی ادبیات کا ہجرہ انعام اور حکومت پاکستان کا صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سر فہرست تھے۔ 26دسمبر 1994ءکوملک کی ممتاز شاعرہ پروین شاکر اسلام آباد میں ایک ٹریفک حادثے میں وفات پاگئی ہیں.