کلیکرز نئی نسل کے لیے ایک کھلونا ہے لیکن سچ تو یہ ہےکہ ٹک ٹک کی آواز نے شہریوں کی زندگی محال کردی ہے۔ یہ کھلونا کوئی نیا نہیں ہےلیکن پاکستانیوں کے لیے اس کی آواز اس وقت ایسی ہے جس کے اثرات نفسیاتی طو ر پرہورہے ہیں اور ماہرین کے مطابق اس کی آواز چڑچڑے پن کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق مسلسل استعمال سے بچوں میں چڑچڑاپن، ارتکاز کی کمی اور سماجی رویوں میں تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ جس سے نئی نسل آگاہ نہیں ہے۔ یہ کھلونا ماہرین صحت کے نزدیک ایسی بری تفریح ہے جس کے اثرات آنے والے وقتوں میں ہوں گے ۔
ستر کی دہائی میں امریکہ اور یورپ میں پابندی کا شکار ہونے والا خطرناک کھلونا کلیکرز اب پاکستان میں بچوں کے ہاتھوں میں عام نظر آ رہا ہے اور گلی محلی میں ہر بچہ بس بس کلیکرز کی وجہ سے ٹک ٹک کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔اس کے مسلسل استعمال کے مضر اثرات نے عوام کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
کلیکرز نامی یہ کھلونا دو سخت گیندوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کو ایک رسی سے جوڑا جاتا ہے۔ جب ان گیندوں کو ایک دوسرے سے ٹکرایا جاتا ہے تو ایک زوردار آواز ٹک ٹک پیدا ہوتی ہے۔
رپورٹس کے مطابق یہ کھلونا بظاہر سائنس کے انرجی، مومنٹم اور فریکشن جیسے بنیادی اصولوں کے تحت بنایا گیا ہے جس میں آپس میں جڑے دو گیندوں کو خاص رفتار سے ہاتھ کی انگلی سے مسلسل اچھالا جاتا ہے کہ وہ آپس میں ٹکرانے لگتے ہیں اور ”ریدھم“ بنا لیتے ہیں۔
اس گیم کو دراصل ”کلیکر ٹوائے“ کہا جاتا ہے۔ یہ کھلونا 1960 ءکی دہائی میں امریکہ میں بنایا گیا تھا اور 1970 کے بعد یہ دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ عام طور پر لکڑی یا دھات سے بنائے جاتے تھے، مگر سخت ایکریلک پلاسٹک زیادہ مقبول ہوا۔ یہ کھلونا بولیڈوراس نامی ہتھیار سے مشابہت رکھتا تھا۔ رپورٹس کے مطابق 1960 ء اور 1970 ء کی دہائی میں امریکہ میں کھلونوں کی حفاظت کی ذمہ داری ایف ڈی اے پر تھی۔ 1966 ء کے ایک ایکٹ کے تحت ایف ڈی اے کو خطرناک کھلونوں پر پابندی کا اختیار ملا، جس میں کلیکر بھی شامل تھا۔ ایس نوولٹی نامی کمپنی نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی، مگر عدالت نے کلیکرز کو مکینیکل خطرہ قرار دیا۔
تاہم حال ہی میں یہ کھلونا بچوں میں اس قدر مقبول ہورہا ہےکہ ہر بچہ اس کے سحر میں مبتلا ہے اور جس گھر میں یہ ٹک ٹک نہ ہورہی ہے تو وہاں سکون اور بے سکونی کی کیفیت دونوں ہیں۔ ٹک ٹک کا جنون پاکستان کے ہر شہر میں پھیل چکا ہے۔ بچوں کا یہ جنون رکنے کا نام نہیں لے رہا۔