اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے انٹرنیٹ سست روی اور فائر وال کے خلاف درخواست میں انٹرنیٹ میں ایشو کی وجہ سے متعلق حکومت کی جانب سے تسلی بخش جواب نہ دینے پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ممبر ٹیکنیکل کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فائر وال کی تنصیب اور انٹرنیٹ کی سست روی کے خلاف صحافی حامد میر کی درخواست پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی اور PTA سے رپورٹ طلب کرلی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سست روی کا شکار کیوں ہے؟انٹرنیٹ کی سست روی سے متعلق وکیل وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکیل وزارت آئی ٹی نے بتایا کہ وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ایسی کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔
چیف جسٹس نے وکیل وزارت آئی ٹی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اپ کو علم نہیں تو روسٹرم چھوڑ دیں۔ اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب میرین کیبل خراب ہوئی ہے، اسی وجہ سے انٹرنیٹ سست روی کا شکار ہے۔
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ کیا صرف ہماری کیبل خراب ہوئی ہے؟ نہ ہی درخواست گزار اور نہ ہی عدالت میں موجود لوگوں کو اصل معاملے کا پتہ ہے، اگر کیبل خراب ہے تو اس کو ٹھیک کرنے کی زمہ داری کس کی ہے؟ جس پر وکیل پی ٹی اے نے جواب دیا کہ سب میرین کیبل کو ٹھیک کرنے کی زمہ داری کسی ایک کمپنی کے نہیں بلکہ بہت سارے کمپنیوں کی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ انٹرنیٹ سے جوڑے نوجوان نسل کی فری لانسنگ کے زریعے زریعہ معاش متاثر ہورہا ہے، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پہلے ایک سب میرین کیبل کٹی تھی جو 28 کو ٹھیک ہو گی، پھر دوسری کیبل کٹی جس کو ٹھیک ہونے میں ایک مہینہ لگے گا رات کو ایک میسج آیا اور بتایا گیا کہ ایک اور سب میرین کٹ گئی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ لاہور میں بھی ایسی درخواست ہے نہ وہاں کوئی ذمہ داری قبول کر رہے اور نہ یہاں،
وکیل پی ٹی اے نے عدالت میں کہا کہ اگر مجھے صحیح بریف نہ کیا گیا تو میں انکی نمائندگی ہی نہیں کروں گا۔
وکیل درخواست گزار ایمان مزاری نے کہا کہ مختلف قسم کے ایپس کام ہی نہیں کررہے، واٹس ایپ پر تصویر تک نہیں جارہی، ایکس نہیں چل رہا، واٹس ایپ پر تصویر اور آڈیو نوٹ نہیں جارہا، ان سب کا سب میرین کیبل سے کوئی تعلق نہیں۔
عدالت نے ریمرکس دیے کہ آپ عوام کو مس لیڈ کر رہے ہیں سمجھ نہیں آ رہی عوام کس کا یقین کریں، پچھلے کچھ دنوں سے حکومتی آفیشلز نے مختلف بیانات دیے، قوم جاننا چاہتی ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے پی ٹی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرکے کیس کی سماعت 3 ستمبر تک ملتوی کر دی۔