اسلام آباد: ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 2023 میں روزانہ اوسطاً 12 بچے یا ہر دو گھنٹے میں ایک، جنسی زیادتی کا نشانہ بنے ہیں۔
اسلام آباد میں قائم این جی او ساحل نے رواں ہفتے شائع ہونے والی اپنی ششماہی رپورٹ میں کہا کہ رواں سال جنوری سے جون کے درمیان بچوں کے جنسی استحصال کے کل 2 ہزار 227 کیسز رپورٹ کیے گئے۔
این جی او اپنا ڈیٹا اخباری رپورٹس کے علاوہ براہ راست رپورٹ کیے گئے کیسز سے بھی مرتب کرتی ہے۔ اس نے کہا کہ 2023 میں ریکارڈ کیے گئے کیسز میں 1 ہزار 207 لڑکیاں اور 1 ہزار 20 لڑکے تھے۔
ساحل کے نیشنل لیگل ایڈ کوآرڈینیٹر امتیاز احمد سومرہ نے بتایا کہ زیادتی کے زیادہ تر واقعات میں چھ سے پندرہ سال کے بچے شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ 47 فیصد سے زیادہ کیسز اس عمر کے گروپ کے درمیان رپورٹ ہوئے اور ان میں سے، لڑکیوں (457) کے مقابلے میں زیادہ لڑکوں کو (593) جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
این جی او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال ریکارڈ کیے گئے 2 ہزار 200 سے زائد کیسز میں سے 912 میں ملزمان متاثرہ بچے کے جاننے والے تھے۔
ساحل رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان میں سے تقریباً 75 فیصد کیسز ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
جنوبی صوبہ سندھ میں 314 کیسز تھے جبکہ قومی دارالحکومت اسلام آباد کے وفاقی علاقے میں 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 161 واقعات ہوئے۔ساحل کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں پورے صوبے میں کل صرف 24 کیسز رپورٹ ہوئے جو کہ ناقابل یقین ہے۔
ساحل کے نیشنل لیگل ایڈ کوآرڈینیٹر امتیاز احمد سومرہ کے مطابق پنجاب میں سب سے زیادہ کیسز ریکارڈ ہونے کی وجہ بھی صوبے میں بہتر پولیسنگ اور رپورٹنگ میکانزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم رپورٹنگ کے موثر طریقہ کار کی وجہ سے ان کے اعداد و شمار جاننے کے قابل ہیں۔
امتیاز احمد سومرہ نے بچوں کے جنسی استحصال کے معاملات میں سزا کی کمی کو کمزور عدالتی نظام اور عدالت سے باہر معاملہ طے کرنے کے معاشرتی رجحان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا قانونی نظام ان گھناؤنے جرائم کو سالوں تک چلنے کی اجازت دیتا ہے۔ بچوں کے جنسی استحصال کے مقدمات میں سزا کی شرح 2 فیصد بھی نہیں ہے اور ان میں سے زیادہ تر مقدمات، جو قانونی عمل سے گزرتے ہیں، دونوں فریقوں کے درمیان سمجھوتہ کے ذریعے طے پاتے ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم وکیل نے کہا کہ اس کی وجہ متاثرین کے خاندانوں کو درپیش سماجی اور معاشی دباؤ اور جنسی زیادتی سے متعلق بدنما داغ ہیں۔
انسانی حقوق کی وزارت کے ایک سینیئر اہلکار محمد عارف لغاری نے اس حوالے سے کہا کہ حکومت بچوں کو جنسی استحصال سے بچانے کے لیے بہتر طریقہ کار تیار کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا [قانونی] نظام سست ہے، لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اپنی آئینی اور عدالتی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالتوں کو تفصیل کے ساتھ اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے، اسے دونوں طرف سے دلائل سننے ہوتے ہیں اور طریقہ کار کو مکمل کرنے کے لیے وقت دینا ہوتا ہے تاکہ کوئی یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ قانون کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔