مودی سرکار کی جانب سے کونسا ایسا حربہ ہے جو کشمیری عوام کو زچ کرنے کیلئے نہ آزمایا گیا ہو۔ پوری دنیا میں بھارتی بربریت کیخلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں حتیٰ کہ بھارت کے اندر سے بھی مودی سرکار کے اقدامات کیخلاف صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے لیکن مودی سرکار کسی احتجاج اور اپنے خلاف بلند ہونیوالی آوازوں کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ نہتے اور معصوم کشمیریوں کو دہشت گرد اور درانداز قرار دیکر ان پر تشدد کرکے یا تو اپاہج بنا دیا جاتا ہے یا شہید کردیا جاتا ہے۔
موجودہ دور سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا تیز ترین دور ہے۔ اس دور میں ظلم کی آواز کو دبانا ناممکن ہے۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر چیخ چیخ کر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی داستانیں سنا اور دکھا رہا ہے۔ کشمیری1115 روز سے بدترین کرفیو کی سختیاں برداشت کررہے ہیں۔ سفاک فوج کے ہاتھوں اجتماعی قتل‘ گمشدگیاں‘ عزت مآب خواتین کی بے حرمتی اور آزادی اظہار پر لگائی بے جا پابندیوں اور سیاسی جبر سے نجات کی آوازیں سوشل میڈیا پر بلند ہو رہی ہیں لیکن افسوس ہے کہ عالمی سطح پر بھارت کیخلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔
ایک طرف بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے‘ جبکہ دوسری جانب اس نے وہاں کے رہنے والوں کا جینا محال کررہا ہے۔ بھارت وادی میں جس طرح بدمست ہاتھی کی طرح دندنا رہا ہے اور وہاں انسانی حقوق کو اپنے پیروں تلے روند رہا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کے علمبردار عالمی اداروں اور تنظیموں کو تو کم از کم بھارتی جارحیت کا نوٹس لینا چاہیے۔ حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مقبوضہ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے بھارتی حکومت کالے قانون افسپا پر نظرثانی اور منسوخ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے اپنی جاری سالانہ رپورٹ میں کہا ہے بھارتی فوج نے پڈگام میں بھارتی پارلیمانی انتخابات کے دوران ایک راہگیر کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے والے فوجی افسر کو شاباش دی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے بھارتی حکومت کالے قانون افسپا پر نظرثانی اور وادی میں اس کے نفاذ کو منسوخ کرنے میں بھی ناکام رہی جبکہ یہ قانون بھارتی فوجیوں کو وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں معاونت فراہم کر رہا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا اس قانون کے تحت گزشتہ طویل عرصے سے بھارتی فوج بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ گزشتہ سال وادی میں حکام نے 27 بار انٹرنیٹ سروسز بھی بند کر کے لوگوں کو آزادی اظہار رائے سے محروم کیا جبکہ بڑے پیمانے پر پرامن مظاہرین کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئیں۔
کشمیر کے صحافیوں کو مسلسل حکومتی ایجنسیوں سکیورٹی فورسز اور پولیس کی طرف سے دباو¿ کا سامنا ہے۔ کئی کشمیری صحافیوں کے خلاف کیسز درج کر دیئے گئے ہیں جو ان کی گردنوں پر لٹکتی تلواروں کی مانند ہیں۔اگست دو ہزار انیس میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت، خصوصی پوزیشن اور داخلی خودمختاری کے خاتمے کے بعدکشمیری صحافت بھی پابند سلاسل کر دی گئی ۔ کشمیر کی خبروں پر پابندی لگا دی گئی تاکہ دنیا کشمیر یوں کے حالات سے آگاہ نہ ہو سکے۔
گزشتہ چھتیس ماہ میں کشمیر میں کیا کچھ بدل گیا ہے؟ زمینی حقائق کیا ہیں اور کیا یہاں کا میڈیا آزاد ہے یا اس پر غیر معمولی قدغنیں لگائی گئی ہیں؟ابھی حال ہی میں 'دی پریس کونسل آف انڈیا‘ کی تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے اپنی رپورٹ جاری کی جس میں اس ادارے نے کشمیرکے میڈیا کی سنگین صورتحال بیان کی۔ چھتیس صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ بعنوان 'سٹیٹ آف میڈیا ان جموں اینڈ کشمیر‘ میں اس ادارے نے بتایا کہ کشمیر میں صحافی انتہائی دباو¿ اور تناو¿ کے شکار ہیں۔پریس کونسل کی ٹیم میں بھارتی صحافی پرکاش دوبے' کنوینر اور گروپ ایڈیٹر دینیک بھاسکر‘ گربیر سنگھ' دی انڈین ایکسپریس‘ اور ڈاکٹر سمن گپتا' گروپ ایڈیٹر جن مورچا‘ شامل تھے۔ یہ ٹیم جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جانب سے خط کے بعد گزشتہ ستمبر میں کشمیر کے دورے پر آئی تھی اور اس نے ابھی حال ہی میں اپنی سروے رپورٹ جاری کردی۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ مقامی انتظامیہ کشمیر کے صحافیوں پر اعتماد نہیں کرتی اور اسے شبہ ہے کہ یہاں کے بیشتر صحافی علیحدگی پسندوں کے مقاصد کے حامی ہیں۔'
پریس کونسل نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ صحافیوں کی طرف سے متاثرہ کنبوں کا بیانیہ یا شہریوں کے انٹرویو کرنا کوئی 'ملک دشمن‘ عمل نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کشمیر کے صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے لئے بالکل آزاد نہیں ہیں اور انہیں مختلف سرکاری اداروں سے سخت ترین دباو¿ کا سامنا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے امسال آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے دوران اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں 1989 سے اب تک دسیوں صحافی شہید ہو چکے ہیں۔ شہید ہونے والے صحافیوں میں شبیر احمد ڈار، مشتاق علی، غلام محمد لون ، غلام رسول آزاد، محمد شعبان وکیل، پرویز محمد سلطان ، مشتاق احمد اور ایک خاتون صحافی آسیہ جیلانی شامل ہیں۔ رپورٹ میںانکشاف کیا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں پر تشدد، اغوا، قاتلانہ حملے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا روز کا معمول بن چکا ہے۔ اس ظلم و تشدد کی وجہ سے صحافیوں کےلئے مقبوضہ علاقے میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں کئی صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران زخمی ہو چکے ہیں اور بعض کو فوجیوں نے جھوٹے الزامات کے تحت نظر بند کر دیا ۔ اسی وجہ سے عالمی پریس فریڈم انڈیکس کی درجہء بندی میں بھارت بہت نیچے آچکا ہے۔