بدعنوانی کے خاتمہ کا نسخہ

بدعنوانی کے خاتمہ کا نسخہ

معاشی ماہرین کی غالب اکثریت کا اِس بات پر کلی اتفاق ہے کہ ملک کی معیشت کی بدحالی بڑی وجہ بدعنوانی اور بد انتظامی ہے، جس کو ہر سرکار دعوﺅں کے باوجود کنٹرول نہیں کر سکی ۔ یہی معاملہ گوررننس کا بھی ہے، کپتان نے تو کرپشن کے خاتمہ کے نام پرسرکار حاصل کی،لیکن وہ بھی جلد اسکے سامنے ڈھیر ہوگئے، اُس وقت کے پردھان منتری اب عوامی سطح پر اپنی ناکامیوں اور نااہلی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں، انکے سہولت کار بننے والوں کو بھی انھوں نے سخت مایوس کیا ہے، تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ دوسال کی قلیل مدت میں بھی سربراہان نے پورے معاشرہ کی فیبریکس ہی بدل کر رکھ دی نئی ریفارمز لا کر عوام کےلئے آسانیاں پیدا کیں، ہمارے پڑوس میں عام آدمی پارٹی کی مثال سامنے ہے، دہلی میں بغیر رشوت کے ہر سہولت عوام کو اسکی دہلیز پر مل رہی ہے جبکہ ہمارے سابق وزیر اعظم مافیاز ہی کو مورد الزام ٹھراتے رہے باوجود اس کے سارے قومی ادارے ان کے ساتھ ایک پیج پر تھے۔
عمومی رائے یہ ہے، اقتدار کی راہ داریوں میں برا جمان اُن تمام بدعنوانوں پر دست شفقت رکھتے ہیں، جن سے انکے مفادات وابستہ ہوتے ہیں،اور وہ سرکاری اختیارات بھی رکھتے ہیں اس لئے پٹواری سے لے کر تھانیدار اور بیوروکریسی تک کی تعیناتی اور تبادلہ جات کے لئے وہ متحرک رہتے ہیں،علاوہ ازیں ٹھیکیداری نظام کے تحت چلنے والے اداروں میں بھی اِنکی دلچسپی ہوتی ہے۔سرکاری شعبہ جات کے علاوہ ملکی سطح پر قائم اتھارٹیز میں بھی یہ اپنی راحت کا سامان ڈھونڈتے ہیں، یہی وہ مقامات ہیں جہاں سے بدعنوانی کے دھارے پھوٹنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
گذشتہ دنوں ہماری ملاقات ضلعی دفتر خزانہ میں ایک افسر سے ہوگئی، بر سبیل تذکرہ وہ گویا ہوئے کہ ایک ضلع میں کم وبیش 25 سے زائد محکمہ جات ہیں، جن میں مقامی، صوبائی اور وفاقی بھی شامل ہیں، اگر ضلع میں ایک اینٹ بھی لگائی جانی ہے، کسی کی سرکاری گاڑی کو پنکچر بھی لگنا ہے تو اسکی منظوری ضلعی دفتر خزانہ ہی سے ہوگی، اگرچہ بجٹ تو متعلقہ محکموں کے پاس کے پاس ہوتا ہے لیکن خزانہ ہمارے پاس ہوتا ہے، ہمارا ماتھاٹھنکا کہ اگر سرکار پورے ملک کے 135قبائلی علاقہ جات کے7آزاد کشمیر کے 10اضلاع میں انتہائی دیانتدار، معاملہ فہم، با صلاحیت افردا کی تقرری کو یقینی بنائے انھیں کام کرنے کے لئے فری ہینڈ دے،اس 
نظام کو ای گورننس کے ذریعہ کنٹرول کر ے تو ملک بھر میں کرپشن پر قابو پانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔بدعنوانی کے خاتمے کا یہی کارگر نسخہ ہے۔
مذکورہ دفاتر کے بارے میں رائے یہ ہے کہ ان کا کام سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کرنا ہے، جب سے تنخواہوں کی ادائیگی آن لائن سسٹم سے ہے تب سے ملازمین کے لئے کچھ آسانی پیدا ہوئی ہیں،مگر تاحال انڈر ہینڈ ”ڈیل“ کا راستہ بند نہیں ہوا ہے، انھیں پریشان کرنے کے لئے لہریں گننے والے اب بھی موجود ہیں ، بالخصوص دوران ملازمت فوت ہو جانے والے ملازمین کے لواحقین کے لئے بڑی مشکلات ان دفاتر سے وابستہ ہیں جو ارباب اختیار کی توجہ چاہتی ہیں۔ بقایا جات کی ادائیگی ، جی پی فنڈسے لے کر پنشن کی منظوری تک یہ ان اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، جو انھیں پریشان کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ یہ معاملات انتہائی معمولی نوعیت کے ہیں، اس کے اثرات سماج پر زیادہ مرتب نہیں ہوتے،تجوریوں کے َدر تو ان کیسوں میں کھلتے ہیں، جن کا راستہ ٹھیکیداری نظام کی طرف جاتا ہے، قصبہ ،دیہات ہو یا شہر ان میں کوئی بھی تعمیری کام ہو گا تو اس کے بل کی منظوری بھی انھیں” شفاف“ ہاتھوں سے ہوگی، جن کی” نیک شہرت “سے ہر کس و ناکس واقف ہے۔
 ایک زمانہ تھا جب ڈیل کرنے والے رازو نیاز سے بات کرتے ہوئے اس لئے بھی ڈرتے تھے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں، گرتی اخلاقی اقدار نے انھیں اِس فکر سے بھی آزاد کر دیا ہے۔سیلاب میں ٹوٹتے پختہ بند، شکستہ ریخت سڑکیں، دیواروں کے نیچے آتے سکول کے بچے،زمیں بوس ہوتے مکان اس بات کی شہادت ہیں کہ” لین دین“ کا جہاں ہر ضلع میں آج بھی آباد ہے۔
جس طرح قانون اپنا راستہ بناتا ہے اس طرح یہ طبقہ بھی اپنے بچنے کا راستہ نکال لیتا ہے، عدلیہ، انتظامیہ دیگر ادارے جب ہم نشین ہوں، انکے واجبات قلم کی نوک سے ادا ہوتے ہوں، تو اس کارگزاری اور دولت کو اپنی ”قابلیت“ ہی کہا جا سکتا ہے۔ نجانے اس قماش کے لوگ کیوں بھول جاتے ہیں جب یہی دولت چند تجوریوں اور ہاتھوں میں جاتی ہے تومعاشی تفاوت پیدا ہوتا ہے اور قوم کے حساس نوجوان نشہ کی دلدل میں اُتر جاتے ہیں،انتقامی مزاج والے جرائم کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں،کھلی بدعنوانی سے سماج کی عمارت میں بے چینی کی پہلی اینٹ رکھی جاتی ہے۔ اب یہ پوری قوم کے لئے زہر قاتل بن چکی ہے،عالمی سطح پر پہنچنے والی اس شہرتِ داغدارنے ریاست کے علاوہ مقتدر طبقہ کے لئے بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں، پھر بھی اسے ٹھنڈے پیٹ برداشت کرنے میں کیا مصلحت ہے اس بابت راوی خاموش ہے۔ اسکی روک تھام کے لئے نت نئے ادارے بھی اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے،اب تو عام سرکاری اہلکار بڑی دیدہ دلیری سے اس کو بطور حق وصول کر کے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتا ہے اور قانون اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے،شنید ہے نیب قوانین میں ترمیم کا فائدہ بھی انھیں” درویشوں “کو پہنچایا گیا جو اس کا گرُ جانتے ہیں۔
موجودہ سرکار میثاق معیشت کرنے کی خواہاں ہے،تمام سیاسی جماعتوں کو شریک کرنے کی بھی آرزو مند ہے،تاکہ سرکار کسی کی بھی مگر امور مملکت صاف شفاف انداز ہی میں چلتے رہیں، معاشی پالیسیاں اسی طرح گامزن رہیں جو ملک کے وسیع تر مفاد میں ہوں تب ہی ملک معاشی گرادب سے نکل سکتا ہے، نتائج کی بہترین توقع تو تبھی ممکن ہے جب ہمہ قسم کی بدعنوانی، رشوت، تحائف، کمیشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی قومی سطح پر بنائی جائے، جس میں سے کسی بھی عوامی نمائندہ کے گزرنے کا امکان نہ ہوں۔
قومی خزانہ کو چیک اور مانیٹر کرنے کا اگرچہ پورا میکانزم موجود ہے پھر بھی ہمیں دنیا کی بدعنوان ریاست کا ”اعزاز‘ ملا ہے، یہ رجحان اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے؟ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا بجٹ جب اداروں تک پہنچتا ہے تو اس کے کنزیوم ہونے کے راستہ پر کئی سوراخ ہوتے ہیں جن سے یہ خاص جیب میں گرتا ہے، وہ ادارے جن کے ناتواں کندھوں پر اسکو تقسیم یا منظورکرنے کی ذمہ داری ہے ،انکی تعداد مرکز اور صوبوں میں انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، آڈیٹر جنرل، پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی، اکاﺅنٹنٹ جنرل کے علاوہ ملٹری اکاﺅنٹس، ریلوے ،واپڈا و دیگر اتھارٹیز کے علاوہ خزانہ کے ضلعی دفاتر میں اگر اچھی شہرت کے حامل ایماندار،اہل، محب وطن سرکاری افسران تعینات کرتے ہوئے انھیں کام کرنے کی مکمل آزادی دی جائے تو بدعنوانی کا گراف جلد نیچے آسکتا ہے، جو اہل اور ایماندار اِس ملک کا درد اور بدعنوانی کی لعنت کو روکنے کا پختہ ادارہ رکھتے ہوں انکی سر پرستی کی جائے تو بعیدنہیں کہ اس کا خاتمہ سنگین ترین سزا کے بغیر بھی ممکن ہو۔مگر یہ خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہو گا جب ہر متعلقہ ادارہ ،فرد ملک کو بدنام کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے والوں کے سر سے دست شفقت اٹھا لے،بدعنوانی کے خاتمہ کا یہی آسان نسخہ ہے۔

مصنف کے بارے میں