گزشتہ کالم میں نے پاکستان کے یوم آزادی پر جشن آزادی کا طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے بداخلاقوں کے ایک مخصوص ٹولے پر لکھا تھا، ہمارے اکثر شرفاء تیرہ اور چودہ اگست کی راتوں کو اپنے گھروں سے کسی مجبوری کے تحت ہی نکلتے ہیں، البتہ اوچھے، شوخے، بدتمیز وبداخلاقی لوگ خصوصاً ہماری نوجوان نسل کا ایک شرپسند حصہ اُس روز گھروں میں ٹِک کر بیٹھنے کو گناہ کبیرہ سمجھتا ہے ، وہ اگر باہر نکل کر اپنی فطرت یا تربیت کے مطابق وہ ماحول پیدا نہ کرے، یا اُس گندے ماحول کا حصہ نہ بنے، جو اُس روز بڑے شہروں کی سڑکوں پر دکھائی دیتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے وطن سے ’’اظہارِ محبت‘‘ کرنے میں وہ ناکام رہا ہے، …ہماری پولیس اُس روز مکمل طورپر بے بس دکھائی دیتی ہے، یہ نہیں کہ وہ کچھ نہیں کرتی، مگر کچھ شرپسندوں کو اُن کے شرکے مطابق سبق سکھانے کی جو نتائج اکثراوقات اُسے بعد میں بھگتنے پڑھتے ہیں وہ ایسے مواقعوں پر خاموش تماشائی بن کر کھڑے رہنے کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے، مجھے یاد ہے چند برس قبل لاہور میں یوم آزادی کی رات ایک بڑی گاڑی میں سوار ایک بدمست نوجوان نے ایک اور گاڑی میں سوار کچھ خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی، اُن پر آوازے کسے، ایک سب انسپکٹر نے اِس کا نوٹس لیا، بدمست کو گرفتار کرکے تھانے لے آیا، اُس کی اِس جرأت یا اچھے عمل کو سزا اُسے یہ ملی اُسے معطل کردیا گیا، کیونکہ وہ بدمست نوجوان ایک اعلیٰ پولیس افسر کا بیٹا نکل آیا تھا، اُس سب انسپکٹر سے میں نے کہا ’’شکر کرو وہ اعلیٰ پولیس افسر کا بیٹا تھا ،اس پر تمہیں صرف معطل کیا گیا ہے، وہ کسی اور طاقتور ادارے کے کسی اعلیٰ افسر کا بیٹا نکل آتا تمہیں ملازمت سے ہی برخاست کردیا جاتا، اور ملازمت سے برخاست تمہارے محکمے کے وہ بے شرم اور بے ضمیر افسران کرتے جنہوں نے اُس روز سڑکوں پر تمہاری یہ ذمہ داری لگارکھی تھی ہرصورت میں امن وامان کو قائم رکھنا ہے اور بدمستوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہے‘‘…ویسے ہماری بے چاری پولیس اب ہرمعاملے میں ہی بے بس دکھائی دیتی ہے، جس درندگی سے اُسے استعمال کیا جاتا ہے، اُس کی ڈیوٹی کے جو اوقات ہیں، اور ویسے بھی کچھ اعلیٰ پولیس افسران کی بے ضمیریوں کے نتیجے میں لوگوں خصوصاً جرائم پیشہ افراد کی نظروں میں جو اُس کی اوقات ہے، جس کمینے انداز میں اُس کے حصے میں آنے والے فنڈز اعلیٰ افسران اپنا حق سمجھ کر کھاپی جاتے ہیں، میرا بس چلے تو میں ’’رشوت‘‘ جِسے اب ’’فیس ‘‘ کہا جاتاہے اُن کے لیے جائز قرار دے دوں، ابھی ایک بہت ہی نیک نام وانسان دوست پولیس افسر رضوان طارق فیصل آباد سے تبدیل ہوکر لاہور میں ایس پی سٹی لگا ہے، میں اُسے نہیں جانتا، میں نے اُسے نیک نام و انسان دوست اِس لیے کہا وہ جہاں جہاں رہ کر آیا وہاں کے شرفاء اُس کی تعریف ہی نہیں اُس کی عزت بھی کرتے ہیں، کل میں ایک خبر پڑھ رہا تھا اُس نے اپنی ڈویژن میں تعینات پولیس ملازمین کو ایک حلف نامہ جمع کروانے کے لیے کہا ہے کہ ’’آئندہ وہ اپنے علاقوں میں کسی جرم کی سرپرستی نہیں کریں گے ‘‘۔ …ہمارے اکثر پولیس ملازمین یہ حلف نامہ جمع کروانے میں اُسی طرح کوئی عار محسوس نہیں کریں گے جس طرح جرائم کی سرپرستی کرنے میں وہ کوئی عار محسوس نہیں کرتے، … اصل مسئلہ کسی حدتک صرف ایک ہی صورت میں حل ہوسکتا ہے کہ پولیس ملازمین کی تنخواہیں اُن کی ڈیوٹیوں کے مطابق بڑھائی جائیں، پھر مسجدوں میں بیٹھ کر قرآن پاک پر بھی، اُن میں سے اکثر یہ حلف دینے کے لیے تیار ہو جائیں گے’’ وہ آئندہ اپنے علاقوں میں جرائم کی سرپرستی نہیں کریں گے‘‘۔مگر اِس کے ساتھ ساتھ اُن چھوٹے پولیس ملازمین کو بھی یہ حق دیا جائے وہ بھی اپنے اعلیٰ افسران سے یہ حلف لیں کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں جرائم کی سرپرستی کے لیے اُنہیں مجبور نہیں کریں گے، … لاہور انویسٹی گیشن میں تعینات ایک ایس پی نے ’’جائیدادی معاملات‘‘ میں اپنی برادری کو جس غلط انداز میں سپورٹ کیا، اپنے مخالفین پر جس انداز میں جھوٹے پرچے کروائے، ایک درخواست اُس کے خلاف زیر غور ہے، اگر کوئی نیک وانصاف پسند پولیس افسر اُس درخواست کا باقاعدہ انکوائری افسر مقرر ہوا مجھے یقین ہے وہ حسبِ معمول اپنی ’’ پی ایس پی کلاس‘‘ کو سپورٹ کرنے کے بجائے میرٹ پر فیصلہ کرے گا، یہ بھی اُس صورت میں ممکن ہے اگر درخواست دہندہ خاتون اپنی درخواست واپس لینے کا سخت دبائو قبول نہ کریں، یہ کہانی میرے پاس محفوظ ہے، کسی روز تفصیل سے عرض کروں گا، …پچھلے دنوں آئی جی انعام غنی نے پولیس ملازمین کا نشہ ٹیسٹ کروانے کی پالیسی جاری کی تھی، اُس کے مطابق بے شمار پولیس ملازمین کا نشہ ٹیسٹ ہوا بھی تھا، اِس پالیسی پر ایک شعر میں نے لکھا تھا ’’اب آگے اِس میں تمہارا بھی نام آئے گا … جو حکم ہو تو یہیں چھوڑدوں فسانے کو‘‘ … پھر یہ ہوا اِس فسانے (پالیسی ) کو شاید اس توقع کے تحت چھوڑدیا گیا کہ اگر جواباً پولیس ملازمین کی طرف سے یہ مطالبہ یا ضِد سامنے آگئی وہ اُتنی دیرتک اپنا نشہ ٹیسٹ نہیں کروائیں گے جتنی دیر تک ہمارے اعلیٰ ترین افسران یہ نشہ ٹیسٹ نہیں کرواتے تو لینے کے دینے پڑسکتے ہیں، وہ تو شکر ہے حرام کی کمائی سیدھی نکل جاتی ہے، میڈیکلی خون میں شامل نہیں ہوتی ورنہ خون کے ’’کرپشن ٹیسٹ‘‘ کی رپورٹ ہرخاص وعام کی پازیٹو ہی آتی،…میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا اِس بار محرم الحرام میں لاہورپولیس نے جس جانفشانی سے کام کیا، جس انداز میں آپریشنی پولیس متحرک رہی اِس کا کریڈٹ اِس کے کپتان ڈی آئی جی ساجد کیانی کو جاتا ہے۔ وہ اگر کئی راتیں مسلسل جاگ کر سکیورٹی معاملات کا جائزہ نہ لیتے اِس بار جتنے ’’سکیورٹی تھریٹس ‘‘ تھے دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد میں شاید کامیاب ہو جاتیں، … اِس کا ’’صلہ‘‘ اُنہیں مینار پاکستان میں ایک مشکوک واقعے کو بنیاد بناکر تبدیلی کی صورت میں مِلا، حد یہ ہے اُس واقعے کی انکوائری بھی ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی، ساجد کیانی جس طاقتور بیک گرائونڈ کے حامل ہیں وہ اگر چاہتے اپنا تبادلہ رُکوا بھی سکتے تھے، ایک بار ایسی ہی طاقت کے حامل ایک ڈی آئی جی کو ایک ناجائز وجہ پر لاہور سے تبدیل کردیا گیا تھا، اگلے ہی لمحے حکمرانوں کو اپنے احکامات واپس لینے پڑ گئے تھے، ساجد کیانی وہ خوش قسمت انسان ہیں میڈیا نے بیک زبان اُن کے تبادلے کی مذمت کی، اور بوقت رخصت اُن کے ماتحتوں نے جو والہانہ محبت اُن سے کی، اُس کے جو مناظر ہم نے دیکھے، وہی اُن کا اصل اعزاز ہے!!