اسلام آباد : وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا مزید کہنا ہے کہ ایوان کو فیصلے کا حق دینا ہوگا اور ہم کابینہ کو کبھی غیر آئینی کام کا نہیں کہیں گے۔ایوان میں بیٹھے لوگ کیا غلام ہیں؟ ہم ان پیسوں کی ادائیگی نہیں کرسکتے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اگر عدالت کا فیصلہ ہے کہ پیسے دے دیں تو اس کے باوجود کوئی پیسے دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے معاشی مسائل اس حکومت نے جنم نہیں دیے۔ مسائل کے حل کے لیے وقت لگے گا ۔ ڈیفالٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اللہ کے فضل سے ایک ادائیگی میں بھی تاخیر نہیں ہوئی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ کیا ہو جائے گا اگر الیکشن کچھ ماہ تاخیر سے ہوگا۔ الیکشن اکتوبر میں ہونے دیں۔ ایک سیاسی جماعت نے تماشہ لگایا ہوا ہے۔ مگر اللہ کے فضل سے ہم ناامید نہیں ہے۔ دنیا پریشان ہے کہ ہم تمام وعدے کیسے پورے کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق آئی ایف ایم کی تمام شرائط پوری کر دی گئی ہیں مگر ایجنڈا کچھ اور ہے۔ ہم نے ملک کو کھڑا کرنا ہے، یہاں صلاحیت ہے۔ صرف کچھ مہینوں کی بات ہے۔ آدھے سے زیادہ وقت مقدمات میں لگ رہا ہے۔
اس ملک کو تباہ کرنے والوں کو منظر عام پر لانا چاہیے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ آئین کے تحت 90 روز میں الیکشن نہ ہوئے ہوں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کے پاس یہ اختیار نہیں کہ عدالت کے حکم پر الیکشن کے لیے فنڈز جاری کرے۔
ان کے مطابق ہاؤس نے بل پیش کیا جسے کابینہ نے منظور کیا مگر ایوان نے مسترد کر دیا، سٹیٹ بینک کو سپریم کورٹ کے حکم پر رقم کی منتقلی کا اختیار نہیں کیونکہ آئین میں ایسا کوئی نظام نہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش تھی۔
انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ایک ہی روز الیکشن پر 47.4 ارب کے اخراجات آئیں گے جبکہ الگ الگ الیکشن کرانے پر اضافی 14 ارب روپے کے اخراجات آئیں گے۔