اسلام آباد : وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پارلیمان کے فیصلے کو اعلیٰ عدلیہ نے جس طرح نظر انداز کیا یہ توہین پارلیمان ہے اور اس معاملے کو استحقاق کمیٹی میں اٹھایا جانا چاہیے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ہم پارلیمان کو نظر انداز کرنے کے حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔
انھوں نے کہا کہ آئین کے تحت نوے روز میں الیکشن کی شق ہم نے نہیں، کسی اور نے توڑی ہے۔ ’ارکان نے استعفے دیے جو سپیکر نے منظور کیے۔ جب آپ نے استعفے منظور کیے تو ان نشستوں پر ساٹھ روز میں ضمنی الیکشن ہونے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اپنا فیصلہ سنایا اور ضمنی الیکشن نوے روز سے بھی آگے چلے گئے۔ سپریم کورٹ کا اقلیتی فیصلہ پنجاب کے لیے ہے، خیبر پختونخوا کے لیے نہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم آئین کی خلاف ورزی نہیں چاہتے۔ وہ ادارہ جس نے آئین کی پاسداری کرنی ہے وہ کیسے عندیہ دے سکتے ہیں کہ پارلیمان اور اس کے فیصلے کو بھول جائیں اور عدالت کے اقلیتی بینچ کا فیصلہ مان لیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم پارلیمان کو نظر انداز کرنے کے حکم کو ماننے کو تیار نہیں۔ یہ جمہوریت کے خلاف ہے۔ ہم فیصلہ کریں گے کہ عوام کا پیسہ کہاں خرچ ہوگا۔ ہم صرف پارلیمان کے حکم کے پابند ہیں۔اگر اعلیٰ عدلیہ اپنے فیصلے سے غیر آئینی فیصلہ لینا چاہتی ہے تو یہ توہین پارلیمان ہے۔
انھوں نے ’توہین پارلیمان‘ کا معاملہ استحقاق کمیٹی میں اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کوئی معزز رکن یا پورے ایوان کی توہین کرتا ہے تو اس کے لیے کمیٹی موجود ہے۔ عدلیہ کی جانب سے کی گئی توہین استحقاق کمیٹی میں اٹھانی چاہیے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ پورے ملک میں ایک روز عام انتخابات ہوں۔ اگر اس بات پر لوگ اڑے ہوئے ہیں کہ عدالت کی پنچایت میں مذاکرات کیے جائیں تو اس کی کامیابی کے امکان کم ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عدالت اپنے حکم سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کرانے کے بجائے اپنے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے۔