پڑوس میں قریب کیا۔؟دوربھی کوئی ماتم ہوتوہم قلم اٹھانامناسب نہیں سمجھتے۔پھریہ توہمارے چاروں طرف سوگ کاایساعالم تھاکہ ایک دونہیں کئی مواقعوں پرلواحقین کے کھلے منہ اوراترے چہرے دیکھ کرآنکھیں ہماری بھی نم ہوئے بغیرنہ رہ سکیں۔اللہ بخشے،بڑی ایماندارحکومت تھی مگراللہ نے لے لی۔اسی میں اللہ کی رضاہوگی سواللہ کی رضاپرہم بھی خوش اورراضی ہیں۔ویسے ہم خوش نہ بھی ہوں تو ہم کربھی کیاسکتے ہیں۔۔؟کپتان کے نادان کھلاڑی اپنے کسی خونی رشتہ دارکی جدائی پراتنے غمگین،اتنے مایوس،اتنے پریشان اوراتنے روئے نہیں ہونگے جتنے وہ اپنی اس ایماندارحکومت کی اچانک جدائی اور موت پر دلبرداشتہ ہوگئے ہیں۔لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ حکومت اورکرسی آنی جانی چیزہے لیکن ہم کئی دنوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کپتان کے کھلاڑیوں کی صرف ایک ہی چیخ وپکار،آہ وبکااورسوال ہے کہ ان کی حکومت گئی توگئی کیوں۔۔؟ حکومت اوراقتدارہاتھ سے جانے کے بعدکپتان اورکپتان کے کھلاڑیوں کارونادھونااورچیخناوچلانادیکھ کریوں لگ رہاہے کہ جیسے ان کی یہ حکومت پانچ نہیں کہیں پچاس سال یاساری عمرکے لئے آئی تھی۔جتنی توانائیاں کپتان کے نادان کھلاڑیوں نے اپنی حکومت کی جدائی میں چیخنے، چلانے، رونے، دھونے، آنسو بہانے اوردوسروں کوبرابھلاکہنے میں صرف کی ہیں اتنی یااس سے بھی کم اگروہ اپنی ایماندارحکومت کی سمت درست کرنے کے لئے صرف کردیتے توواللہ انہیں بے وقت کی یہ سینہ کوبی کرنے اوربال نوچنے کی نوبت نہ آتی۔کپتان کی ناکامی کانقطہ ہی یہ ہے کہ ان کاپوراقافلہ شروع سے آخرتک مشتمل ہی ایسے نادانوں اوردودھ پیتے بچوں پرہے کہ جن کویہ تک بھی پتہ نہیں کہ یہ سیاست کس بلااورکس شئے کانام ہے۔ہماراشماربھی ان بدقسمت لوگوں میں سے ہے کہ جن کے اردگردکپتان کے یہ نادان کھلاڑی یادودھ پیتے بچے کلو یا درجن نہیں منوں اور سیکڑوں کے حساب سے پائے جاتے ہیں۔لوگ ڈی چوک اورپریڈگراؤنڈمیں ان لٹکتے منہ اورسوجھے چہروں سے اللہ کی پناہ مانگ رہے ہیں مگرہمارے پاس ان سوجھے چہروں کی ٹکورکے سواکوئی چارہ نہیں۔ کیونکہ ڈی چوک، پریڈ گراؤنڈ یا کوئی گلی اور محلہ نہیںبلکہ گھر اور در پر ہمیں اس مخلوق کا سامنا ہے۔ بھانجے، بھتیجے، کزنز وغیرہ سمیت ہمارے اکثربچے بھی تقریباًعمرانی وائرس کے شکارہیں۔جب سے ان کے کپتان تخت سے اترے ہیں تب سے پچھلے کئی دنوں سے یہ سارے ہماری طرف منہ بنا کر یا لٹکا کر ایسے گھورگھورکر دیکھ رہے ہیں کہ جیسے ان کے کپتان کووزیراعظم ہائوس سے ہم نے نکالاہو۔یہ پچھلے کئی دنوں سے منہ بناکر یہی رونارورہے ہیں کہ ہمارے کپتان کو کیوں نکالا، ہمارے کپتان کو کیوں نکالا۔۔؟ یہ بڑے ہوتے توہم سمجھالیتے یا یہ خودسمجھ جاتے لیکن بچے ہیںاب ان کوکون سمجھائے یابتائے کہ آپ کے کپتان کوکسی اورنے نہیں بلکہ ان کے اپنے اعمال اورکرائے پر لائے گئے ان کے پیارے چمچوں کے افعال نے نکالاہے ۔ہم پہلے ہی کہتے رہے کہ سیاست بچوں کاکھیل یاکرکٹ کاکوئی میچ نہیں مگرافسوس کپتان اپنے ان نادان اوربچہ کارکنوں کی طرح سیاست کوبھی بچوں کاہی کوئی کھیل سمجھ بیٹھے تھے۔سیاست کوجوبچوں کاکھیل سمجھتے ہیں ان کے ساتھ پھریہی ہوتاہے جوکپتان کے ساتھ ہوا۔سیاست انتقام کانام نہیں،سیاست میں بادشاہ بھی کوئی نہیں ہوتا،سیاست طاقت اورحکومت کانام بھی نہیں۔ سیاست صبر، برداشت، یقین، اعتماد، جوڑتوڑ، عقل ودانش کے ہرطریقے کوآزمانے اور گر کھیلنے کاہی نام ہے۔سیاست میں کوئی حرف حرف آخرنہیں۔لمبی لمبی تقریروں سے اگرسیاست کاقلعہ فتح کرناممکن ہوتا تو رائیونڈ کا نمکین شہباز آج وزیراعظم ہاؤس کامکین نہ ہوتا۔وزیراعظم شہبازشریف نے کونسی لمبی تقریریں کیں۔؟کپتان اورکپتان کے کھلاڑی تویہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنی ضد،انا،ہٹ دھرمی،دھونس ،دھمکی اوربدمعاشی کے ذریعے کہیںسیاست کایہ قلعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فتح کرلیں گے لیکن انہیں یہ نہیں پتہ تھاکہ سیاست میں جوش نہیں ہوش سے کام لیناپڑتاہے۔کپتان کے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کا ریکارڈ اٹھا کر اگر دیکھیںتواس میں ،،میں نہیں چھوڑوں گا،،میں سب کورلائوں گا،،میں این آراونہیں دوں گا،،جیسے ارشادات وفرمودات کے علاوہ کوئی چیزنظرنہیں آئے گی۔کیادوسروں کواس طرح للکارنے اورجگہ جگہ لتاڑنے کوسیاست کہتے ہیں۔ اصل اورکامیاب سیاستدان تووہ ہوتاہے جوآگ اور پانی کوایک جگہ جمع کر دیں۔ جن سے اپنے بھی سنبھالے نہ جائیں وہ غیروں کوکیاساتھ ملائیں گے۔؟ کیااپنے ہی گھونسلے سے اپنے سیاسی پرندوں کی مخالف گھونسلوں یا کیمپوں کی طرف اڑان یہ کپتان کی سیاست ہے۔؟ سیاستدان تواسے کہاجاتاہے جواپنوں کے ساتھ غیروں کوبھی ساتھ ملائے۔ کپتان تو ساڑھے تین سال میں اپنوں کوبھی اپنے نہ بنا سکے۔ گھر کو آگ لگی گھرکے چراغ سے۔لیکن نادان پھربھی کہتے ہیں کہ سازش امریکہ سے ہوئی۔کپتان اگر گھر کو ہی ٹھیک کرتے تونادان کھلاڑیوں کوکسی اورطرف انگلی اٹھانے کی ضرورت نہ پڑتی۔کپتان نے تحریک عدم اعتماداوران کے کھلاڑیوں نے اقتدارکی گلی سے رسواہونے کے بعدجورویہ اورجولب ولہجہ اپنایاہے یہ ہرگز ہرگز سیاسی نہیں۔سیاست میں نشیب وفراز اور ہار جیت کے مواقع آتے رہتے ہیں۔سیاست میں کامیاب بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جواپنی غلطیوں،کمی اورکوتاہیوں سے کچھ سیکھ کرآگے بڑھیں لیکن لگتاہے کہ کپتان اورکپتان کے کھلاڑیوں نے آج تک کچھ سیکھااورنہ آئندہ ان کاکچھ سیکھنے کاکوئی ارادہ ہے۔یہ اگرکچھ سیکھتے تواس قدربے آبرونہ ہوتے۔چھوٹے توچھوٹے ان کے بڑے بھی ماشاء اللہ ایسے بڑے ہیں کہ جن کودیکھ کران پرچھوٹوں کاہی گمان ہونے لگتاہے۔آخری وقت میں کون ڈھول باجے بجاتاہے یاتقریروں کے نام پر مداریوں کی طرح ناچناشروع کرتے ہیں۔ گھر کے ان سب بڑوںکوپتہ تھاکہ اب ان کاآخری وقت شروع ہوچکا ہے۔حکومتی میت سامنے پڑی تھی،اقتدارکے اس آخری روزوقت اورحالات کا تقاضا تھاکہ یہ سب اپنے مردے کی بلندی درجات کے لئے دعائوں کاسلسلہ شروع کردیتے لیکن انہوں نے اس وقت بھی اپوزیشن کولرزانے یااپنے دل بہلانے کے لئے اسمبلی کے اندر ووٹنگ کے بجائے ڈراموں پرڈرامے پیش کر کے جلتی پر تیل ڈالنے والا کام کیا۔ اقتدار کی آخری ہچکیوں میں کیا عقلمند اور باشعور لوگ ایساکرتے ہیں۔؟آج یہ سوال کرتے ہیں کہ رات بارہ بجے ہمارے خلاف عدالتیں کیوں لگیں۔پہلے تو قوم کویہ بتا دیں کہ رات بارہ بجے اسمبلی کیوں لگی۔؟عدالتیں توپھراسمبلی کے بعدہی لگیں نا۔ویسے اس رات لمحوں میں عروج کوجب زوال آیاتوپھرکہاں تھے وہ دن بھرلمبی لمبی تقریریں کرنے اورکہانیاں سنانے والے شعلہ بیان مقرر۔؟جس پارٹی اورجس حکومت میں ایک دو نہیں درجنوں اور سیکڑوں مداری اور درباری مجاور ہوں ایسی پارٹی اورحکومت کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی کوئی ضرورت پیش ہی نہیں آتی۔ کپتان کو کسی اورنے نہیں بلکہ ان کے اپنے اعمال اوران چمچوں کے ایسے ہی غیراخلاقی وغیرسیاسی افعال نے نکالا۔پی ٹی آئی کے ووٹراورکپتان کے سپورٹر مانیں یانہ۔لیکن سچ یہی ہے کہ یہ دس دس گزلمبی زبانیں ہی ان کی حکومت کونگل گئی ہیں۔