ایک حاجی صاحب مالش کرا رہے تھے اور مالشیے سے بھر پور سیاسی گفتگو کر رہے تھے اجڈ اور جاہل مالشیا (عوام جیسا) مروت میں ہاں جی ہاں جی کا راگ الاپ رہا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: ’’کیا حال ہیں حاجی صاحب… آپ نظر نہیں آتے آج کل؟کہاں پائے جاتے ہیں‘‘ حاجی صاحب نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی اور سیاسی گتھیوں کو سلجھانے میں لگا رہا۔ وہ بندہ کہنے لگا: ’’حاجی صاحب! میں آپ کی سائیکل لے کے جا رہا ہوں ‘‘۔وہ سائیکل مالشی کی تھی،وہ لے کر چلتا بنا۔ کافی دیر ہو گئی تو مالشی کہنے لگا:’’ حاجی صاحب! آپ کا دوست آیا نہیں ابھی تک واپس میری سائیکل لے کر؟‘‘حاجی صاحب بولے :’’ وہ میرا دوست نہیں تھا‘‘اور میں اسے جانتا تک نہیں کہ وہ کون تھا؟مالشی بولا:’’ مگر وہ تو آپ سے باتیں کر رہا تھا‘‘حاجی صاحب بولے:’’ میں تو اس کو جانتا ہی نہیں ہوں،میں تو سمجھا تھا کہ وہ تمہارا دوست ہے‘‘مالشی بولا:’’ حاجی صاحب! میں غریب آدمی ہوں، میں تو لٹ گیا‘‘حاجی صاحب بولے:’’ اچھا تو رو مت، میں تجھے نئی سائیکل لے دیتا ہوں، تم سائیکل والی دکان پر جا کے سائیکل پسند کر لو میں آپ کے پیچھے آتا ہوں‘‘مالشی نے ایک سائیکل پسند کی اور چکر لگا کے دیکھا مالشی واپسی پر آکر کہنے لگا کہ حاجی صاحب یہ سائیکل ذرا ٹیڑھی چل رہی ہے۔حاجی صاحب نے کہا:’’جا یار نئی سائیکل ہے، یہ ٹھیک ٹھاک اور بہترین کمپنی کی ہے۔ لاؤ دکھاؤ
میں چیک کرتا ہوں‘‘حاجی صاحب سائیکل پر چکر لگانے گئے اور واپس آئے ہی نہیں۔مالشی کو اس سائیکل کے پیسے بھی دینے پڑ گئے۔آج ایسا ہی حال پاکستانی قوم کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہر نیا آنے والاحکمران حاجی ہے اور عوام مالشی ہیں۔ جائیدادوں کے مالک حکمران ہیں اور بھوکے اور مفلوک الحال عوام ہیں۔سوئس اکاؤنٹ حکمرانوں کے ہیں اور عوام پائی پائی کو ترستے ہیں۔حکمرانی لیڈر کرتے ہیں اور نعرے عوام لگاتے ہیں۔عدالتیں رات بارہ بجے ان کے لیے کھلتیں ہیں اور انصاف کو یہ ترستے ہیں۔پاکستان میں عجیب الخلقت خاندان ابھی تک موجود ہے اور ان کی صورت حال بھی حاجی صاحب اور مالشیے جیسی ہے آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ نواز شریف 67 سال کا ہے لیکن69 سال والے شہباز سے بڑا ہے۔ نواز شریف نے جب کلثوم بی بی بیمار تھی کہا تھا میرا کلثوم سے 40سال رفاقت کا رشتہ ہے ،جبکہ حسین 48 سال کااور مریم 46 کی تھی حسن اور حسن 42 سال کا تھا۔ نواز شریف کا ابا امیر تھا اور شہباز شریف کا غریب آدمی تھا۔بی بی مریم کہتی ہے حسین نواز کا دادا ارب پتی تھا جبکہ حمزہ کا دادا ایک مزدور آدمی تھا۔
جدہ سٹیل مل 2006ء میں بیچی تھی اور اسی پیسے سے 2002ء میں لندن میں فلیٹ خریدے تھے جبکہ حسن نواز 1992ء میں ادھر رہ رہا تھا۔بندہ چار پائی ہمسایہ کو ادھار نہ دے مگر خود اپنی چار پائیوں پر سونے کی ترتیب تو درست کر لے۔چودھری نثار کہتا ہے لندن فلیٹس 93 سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں اور 1968ء میں لگنے والی اتفاق فاؤنڈری نے 1965ء کی جنگ میں استعمال ہونے والے ٹینک بنائے تھے۔ہم نے خودجدہ سٹیل مل بیچی اور ان پیسوں سے لندن کی پراپرٹی خریدی ،لیکن الحمد للہ جدہ سٹیل اب بھی ہماری ہے۔ 1989ء ابوظہبی سے سٹیل مل شفٹ کرکے 1988ء میں جدہ میں لگا لی تھی ہم الحمدللہ 1988ء میں ارب پتی تھے لیکن ٹیکس صرف 900 دیتے تھے۔
1992ء میں 4 ہزار700ٹیکس دیا۔میں جب وردی پہن کر گاؤں جاتا تو گاؤں کی عورتیں چھت پر چڑھ کر دیکھتیں ،صفدر اعوان حسین نواز نے دو سال کی عمر میں شیخ جاسم کے والد سے پارٹنر شپ کا معاہدہ کیا ۔کلیبری فونٹ ایجاد ہونے سے پہلے اس خاندان نے استعمال کر لیا۔مریم بی بی خود کہتی ہیں ایک سال پہلے میری لندن تو کیا پاکستان میں کوئی پراپرٹی نہیں۔کوئی بینک بیلنس نہیں تھالیکن ایک سال بعد الیکشن کے کاغذات میں 5ملین سیکڑوں ایکڑ زرعی اراضی ،شاپنگ مالز،لندن میں پراپرٹی اور اٹلی میں سٹیل کہاں سے نکل آئی۔مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹ سے پیسا کہاں سے آیا۔سولہ ارب کی کرپشن کہاں سے ہوئی۔احد چیمہ پر کیس کیوں بنا؟سلمان شہباز باہر کیوں گیا؟ تمام ریکارڈ کیوں جلا؟اور ایک ہم ہیں جو اندھوں اور کانوں کی طرح تیرہ شبی کو مقدر جان کر ان کی خلائی سرخ بتی کے پیچھے لگ اپنے آپ کو،موجودہ نسل اور آنے والی کو تباہ و برباد کرنے تلے ہوئے ہیں۔ہم اپنی زندگی کی راہوں کو خور خار زار بنا رہے ہیں۔یاد رکھیے آنے والی نسلوں کی تباہی اور ان کا نقصان بھی ہماری گردنوں پر ہو گا۔