ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جن پر خدا مہربان ہو تا ہے‘جنھیں خدا اپنے لوگوں کے لیے منتخب کر لیتا ہے اور پھر ان سے خدمت کا کام لیتا ہے۔آصف محمود جاہ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوںمیں ہوتا ہے کہ جن کے دل میں انسانیت کا پیار اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے‘یہ پاکستان سمیت دنیا کے دس سے زائد ممالک میں چیرٹی کا کام کر رہے ہیں‘انھوں نے خدمت کا کام ایک کمرے کی ڈسپنسری سے شروع کیا تھاجو آج پاکستان کا مایہ ناز چیئرٹی ہسپتال بن چکا۔آصف جاہ پاکستان کے کسٹم جیسے طاقت وار ادارے میں اعلی ترین عہدے پر فائز ہیں مگرآپ ان سے ملاقات کے بعد ان کی عاجزی اور خدمت کے جذبے کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا خاندان قیامِ پاکستان کے بعد سرگودھا میں آکر آباد ہوا جہاں آپ ۱۹۶۲ء میں پیدا ہوئے،ابتدائی تعلیم اسی شہر سے حاصل کی ،ایم بی بی ایس کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے پاس کیا‘سی ایس ایس کیا‘محکمہ کسٹم میں اسسٹنٹ کلکٹر کی حیثیت سے تعینات ہوئے ‘یہ بیس سے زائد کتب کے مصنف ہیں‘ ان کی سب سے معروف کتا ب’’دوا،غذا اور شفاء ‘‘ہے،اس کی اب تک ہزاروں کاپیاں فروخت ہو چکیں۔ڈاکٹر صاحب پچھلے پچیس سال سے اپنے دفتری اوقات سے فراغت کے بعد مریضوں کا مفت علاج کر رہے ہیں‘ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے پہلا کلینک ۱۹۹۱ء میں ملتان میں قائم کیا‘۱۹۹۷ء میں ان کی تعیناتی لاہور میں ہوئی‘انھوں نے اپنے رہائشی علاقے میں غریبوں کے لیے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بنا لی‘یہ ڈسپنسری مسجد کے ایک چھوٹی سے کمرے میں شروع ہوئی ‘یہ نماز مغرب سے عشاء تک وہاں مریضو ں کا مفت علاج کرتے تھے ‘ڈسپنسری کے ساتھ لیبارٹری
قائم ہوئی ‘مخیر حضرات ملتے گئے اور مسجد کے ایک کمرے سے شروع ہونے والی ڈسپنسری اب کسٹمز ہیلتھ کیئر چیرٹی ہسپتال بن چکی ہے‘اس میں ہر شعبے کے معالجین بیٹھتے ہیں اور مریضوں کا مفت علاج کرتے ہیں۔ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ۱۹۹۸ء میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور یہ سوسائٹی اب دنیا کے دس سے زائد ممالک میں انسانیت کی خدمت میں مصروف ہے۔
کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی نے سب سے اہم کام تھر میں پانی کے کنویں کھدوانے کا کیا‘ قحط سالی کی وجہ سے وہاں بھوک‘ افلاس‘ بیماریاں اور موت کی شرح بڑھتی جا رہی تھی‘ تھرپارکر سارا علاقہ صحرا پر مشتمل ہے‘دور دور تک ریت ہی ریت ہے‘چند گوٹھوں میں کہیں کہیں پانی کے کنویں موجود ہیں‘کئی گھوٹھوں میں صبح سویرے خواتین اٹھتی ہیں اور کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پانی لاتی ہیں۔کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی ٹیم نے ڈاکٹر صاحب کی سربراہی میں تھرپارکر میں کنویں کھدوانا شروع کیے‘یہ اب تک بارہ سو میٹھے پانی کے کنویں کھدوا چکے ہیں ۔
کسٹمز ہیلتھ کیئر کا دوسرا اہم پروجیکٹ ’’جھونپڑی سے گھر تک ‘‘کا ہے‘سوسائٹی نے جنوبی پنجاب اور چترال میں سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے کام کیا‘ ۲۰۰۹ء میں بنوں میں شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی بحالی کے لیے کام کیا‘۸؍اکتوبر ۲۰۰۵ ء کے زلزلہ زدگان‘۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کے زیارت کے زلزلہ زدگان‘ ۲۰۱۰ء میں عطاء آباد جھیل‘۲۰۱۰-۱۱ کے خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے سیلاب‘اپریل و ستمبر۲۰۱۳ء کے ماشکیل اور آواران کے زلزلے‘مارچ ۲۰۱۴ء سندھ کے قحط‘ستمبر ۲۰۱۴ء پنجاب کے سیلاب‘مئی ۲۰۱۵ء کے پشاور کے طوفان اور ۲۰۱۶ء کے جنوبی پنجاب کے سیلاب کے دوران اربوں روپے کی امداد ی اشیاء تقسیم کیں‘لاکھوں بے گھروں کے لیے لیے اپنے پروجیکٹ ’جھونپڑی سے گھر‘کے تحت گھروں کی تعمیر کا کام شروع کیا‘اب تک حقیقی معنوں میں دس لاکھ سے زائد لوگوں کو گھر فراہم کر چکے‘یہ دنیا کا سستا ترین گھر منصوبہ ہے جس میں ایک لاکھ سترہزار میں ایک فیملی کو گھر بنا کر دیا جاتا ہے۔یہ سوسائٹی تھر کو سرسز بنانے کے پروجیکٹ میں اب تک چار ہزار ایکٹر کے رقبہ پر تین سو سے زائد گرین زرعی فارم بنا چکی‘ سوسائٹی شمالی وزیر ستان‘تھرپارکر سندھ اور گلگت و ہنزہ میں موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے ہزاروں مریضوں کی آنکھوں کے کامیاب آپریشن کر چکی‘رمضان المبارک میں دو سو سے زائد شہروں میں رمضان دستر خوان چلا رہی ہے‘تھرپارکر کی خواتین کے لیے ’بکری پال پروجیکٹ‘ کے ذریعے ہزاروں بیوہ اور غریب خواتین کو روزگار بنا کر دے چکی‘ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں پچاس سے زائد مساجد تعمیر کرا چکی‘۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی سربراہی میں اس سوسائٹی نے دس سے زائد شہروں میں خواتین کے لیے دستکاری مراکز کا قیام عمل میں لایا‘ مراکش‘ شام‘ روہنگیا‘ فلسطین‘ افغانستان میں امدادی اشیاء کے پچاس پچاس سے زائد کنٹینرز ان تمام ملکوں میں بھجوا چکی‘مالی امداد اور میڈیسن الگ ہیں۔ ہم سب اپنے لیے آسائشیں تو تلاش کرتے ہیں‘اپنی زندگیوں کو آسان بنانے کی کوشش میں ہمہ تن مصروف ہیں مگر مزہ تو یہ ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں لائیں‘جن لوگوں کے پاس وسائل نہیں ان کے لیے وسائل کی فراہمی یقینی بنائیں‘جن کے پاس طبی سہولیات نہیں ان کے لیے طبی مواقع فراہم کریں‘ان علاقوں میں تعلیم و روزگار یقینی بنائیںجہاں کوئی نہیں پہنچ رہا۔ اس معاملے میں ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے ساتھ تعاون کریں‘ دکھی اور لاچار لوگوں کی مدد کے لئے اس سوسائٹی کے ساتھ شانہ بشانہ چلیں‘یہ وقت اور پیسہ ضائع نہیں ہوگا کیوں کہ یہ خدا کے ساتھ تجارت ہے‘اس تجارت میں فائدہ ہی فائدہ ہے‘نقصان بالکل نہیں۔