اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور سیرینا عیسٰی کی نظرثانی درخواستیں منظور کرلی ہیں ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کی جائیداوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا فیصلہ اور رپورٹ کالعدم قرار دے دی گئی۔
نیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواست 6، 4 کے اکثریتی فیصلے سے منظور کرتے ہوئے کیس کا مختصر فیصلہ سنایا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین نے فیصلے سے اختلاف کیا اور اپنا 19 جون والا فیصلہ برقرار رکھا۔
چھ جج صاحبان جنہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا ان میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس قاضی محمد امیر شامل ہیں۔
قبل ازیں جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔
وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظر ثانی اپیل دائر کرتی، حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے.
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہو چکا ہے۔ عملدرآمد کے بعد فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کومواد کا جائزہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا اور آرٹیکل 211 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج نہیں ہو سکتی۔،سپریم کورٹ صرف غیر معمولی حالات میں جوڈیشل کونسل میں مداخلت کر سکتی ہے، عدالت نے جسٹس فائز عیسیٰ کو کیے گئے تین سوالات جس کے انہوں نے جواب دیے ان پر مجھ سے بھی جواب مانگے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض اٹھایا کہ عامر رحمان میرے ٹیکس یا فنانشل ایڈوائزر نہیں ہیں، حکومتی وکیل سے ایسا سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا، جان بوجھ کر نیا مواد عدالتی کاروائی کا حصہ بنایا جا رہا ہے، کیا جسٹس عمر عطا بندیال آپ شکایت کنندہ ہیں؟ ایسے سوالات سے آپ کوڈ آف کنڈکٹ اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس عمر عطابندیال حکومتی وکیل کے منہ میں الفاظ ڈال رہے ہیں، شاید پھر سے کوشش ہو رہی ہے کہ وقت ضائع کیا جائے، ایف بی آر کی رپورٹ نظر ثانی درخواستوں کے بعد آئی ہے۔
عامر رحمان نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی ایف بی آر کارروائی کو بدنیتی قرار دیکر نظر ثانی کی بنیاد بنارہے ہیں جو دستاویزات نظر ثانی کی بنیاد ہے اس پر دلائل دینا میرا حق ہے، عدالتی سوالات کے جوابات دے رہا ہوں اور کہا جارہا ہے کہ وقت ضائع کر رہا ہوں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی نظر میں ان کی اہلیہ کی دستاویزات کا جائزہ لینا غلط ہے، عدالت کو شاید ایک فریق کو سن کر اٹھ جانا چاہیے۔
عامر رحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین سوالات ہی سارے کیس کی بنیاد ہیں، جسٹس فائز عیسی جواب دیں تو تنازع حل ہو سکتا ہے ۔ اس پر جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ کیا مجھے ٹیکس کمشنر نے طلب کر رکھا ہے جس پر گفتگو ہورہی ہے، کیا عدالت اِنکم ٹیکس آفیسر ہے؟۔
دوران دلائل جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک بار پھر مداخلت کی تو جسٹس منظور ملک نے ان سے کہا کہ قاضی صاحب آپ کو اردو اور انگلش میں کئی بار سمجھا چکا ہوں، اب لگتا ہے پنجابی میں سمجھانا پڑیگا، قاضی صاحب مہربانی کریں اور بیٹھ جائیں۔
عامر رحمان نے دلائل دیے کہ عدلیہ کی آزادی ججز کے احتساب سے منسلک ہے، ایک جج کے اہلخانہ کی آف شور جائیدادوں کا کیس سامنے آیا، ریفرنس کالعدم ہو گیا لیکن تنازع اب بھی برقرار ہے۔ عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ تنازع ختم ہو،سپریم جوڈیشل کونسل اس تنازع کے حل کے لیے متعلقہ فورم ہے۔
دوران سماعت جسٹس فائز عیسٰی نے پھر مداخلت کی جس پر جسٹس منظور ملک نے ٹوکا کہ قاضی صاحب آپ کے بولنے سے عامر رحمان ڈر جاتے ہیں، کیا حکومتی وکیل آپ سے لکھوایا کریں کہ کیا دلائل دینے ہیں کیا نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ عدالت کو ایک لطیفہ سنانا چاہتا ہوں۔ جسٹس منظور ملک نے انہیں روکا کہ فی الحال بیٹھ جائیں لطیفہ بعد میں سنیں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ معزز جج اور عدالتی ساکھ کا سوال ہے، ادارے کی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے، جسٹس فائز عیسٰی کہتے ہیں وہ اہلیہ کے اثاثوں کے جوابدہ نہیں۔اس پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر احتساب کے لیے بہت کوشاں ہیں۔ دونوں ججز اپنے اور اپنی بیگمات کے اثاثے پبلک کریں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 3 سوالات کے جواب دینے سے انکار کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ان سے کہا کہ میں نے انکار نہیں کیا سوالات پر اعتراض اٹھایا ہے، میرے منہ میں بات ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ مجھے پنجابی میں روکا نہیں گیا اس بات کا گلہ ہے، پنجابی میں کہوں گا تو ونج تے میں آیا۔ جسٹس منظور ملک نے کہا کہ آپ نے پنجابی نہیں سرائیکی بولی ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ میرا میڈیا ٹرائل کل سے دوبارہ شروع ہو گیا ہے، ہمارے بیوی اور بچے حاضر ہیں، ریٹائرڈ جرنیل کو چھیڑیں گے تو شمالی علاقہ جات کی سیر کرائی جائے گی۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ فارن اکاؤنٹس کیس میں اہم آبزرویشن دے چکی ہے، سات ججز نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی قابل احتساب ہیں، ہم میں سے کوئی اثاثوں کی وضاحت نہیں کرسکے گا تواس کا بھی احتساب ہوگا۔
وفاق کے وکیل عامر رحمان اور جسٹس فائز عیسی نے جواب الجواب مکمل کرلیا اور سرینا عیسی نے بھی جواب الجواب تحریری طورپر جمع کروا دیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت مکمل ہوگئی جس پر سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ 12 بج کر 50 منٹ پر محفوظ کیا جو 2 بج کر 30 منٹ پر سنادیا گیا ۔
واضح رہے کہ یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے 19 جون کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کی تھی۔ 19 جون کے عدالتی فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لندن جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجے کا فیصلہ سنایا تھا یہ فیصلہ 7 ،3 کی نسبت سے سنایا گیا تھا۔