اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس اور اثاثوں کے کیس میں اسٹیٹ بینک سے بیرون ملک منتقل رقوم کی تفصیلات ایک ہفتے میں طلب کر لیں۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤئنٹس اور اثاثوں پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں گورنر اسٹیٹ بینک اور چیئرمین ایف بی آر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بہت سے افراد کے اثاثے اور اکاؤنٹس ملک سے باہر ہیں اور اثاثوں کے ساتھ کیا کرنا ہے یہ بعد کی بات ہے جبکہ پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کب کتنا پیسہ بیرون ملک منتقل ہوا۔
اس موقع پر عدالت کی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی اور کمیٹی کے سربراہ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے بتایا کہ عدالت نے موجودہ قوانین کا جائزہ لینے کا کہا تھا جبکہ عدالت نے پوچھا تھا کہ پیسہ کیسے واپس لایا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: خواجہ آصف نے خود ہی ووٹ کے تقدس کو پامال کیا، عمران خان
چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مقصد باہر گیا ہوا پیسہ تلاش کرنا ہے جبکہ دیکھنا یہ تھا کہ رقم کس نے اور کیسے باہر منتقل کی۔ کس کے کتنے اثاثے اور اکاؤئنٹس کس ملک میں ہیں ۔ سوئٹزرلینڈ میں کتنے پاکستانیوں کے اکاؤنٹس ہیں اور کتنے پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔
چیف جسٹس نے گورنر اسٹیٹ بینک سے استفسار کیا کہ کیا ہم انتظار کریں کہ حکومت پہلے مختلف ممالک سے معاہدے کرے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ معاہدے کے علاوہ کسی ملک سے معلومات نہیں مل سکتی اور ٹیکس دہندگان اپنے دنیا بھر کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی اثاثے چھپائے تو حکومت بالکل مفلوج ہے اور چیئرمین ایف بی آر پہلے لگژری گاڑیوں کا حساب دیں۔ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ڈبل کیبن کچھ گاڑیاں خریدیں اور کچھ یو ایس ایڈ سے ملیں اور اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کون سے آپریشن کرتے ہیں جو کور دے کر ہوتا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نےکہاکہ کسٹم افسران خود لگژری گاڑیاں چلاتے ہیں ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟۔ چیئرمین ایف بی آر خود آ کر تمام تفصیلات دیں۔ چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں مزید کہنا تھا کہ حکومت نے خود پیسہ باہر لے جانے کی پالیسیاں بنائیں اور جب چاہو پیسہ باہر منتقل کر دو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سیاسی بنیادوں پر جنہوں نے قرضے معاف کرائے انہیں واپس کرنا پڑیں گے، چیف جسٹس
عدالت نے حکم دیا کہ ایک سال میں 50 ہزار ڈالر سے اوپر فارن ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ دیا جائے اور تفصیلات سربمہر لفافے میں پیش کی جائیں۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں