عمران خاں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ کے سامنے پیش ہوکر معافی مانگ لی۔ چیف جسٹس اطہر مِن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آج ملزم پر فردِ جرم عائد کی جائے گی۔ ہم فردِ جرم پڑھ کر سنانا چاہتے ہیں۔ اِسی دوران عمران خاں کے وکیل حامد خاں نے استدعا کی کہ عمران خاں کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے عمران خاں کو روسٹرم پر بلا لیا۔ عمران خاں نے کہا ”میں نے اپنے 26 سالہ سیاسی کیرئیر میں ہمیشہ قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے۔ خاتون جج کو دھمکانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ میں نے اپنی حد پار کی ہے تو معافی مانگتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ میں اور میری پارٹی کی طرف سے خاتون جج کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ خاتون جج کے پاس جاکر بھی معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں۔ عدالت کچھ اور کہے تو وہ بھی کرنے کو تیار ہوں“۔ چیف جسٹس صاحب نے عمران خاں کے اِس بیان کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ بادی النظر میں معافی سے مطمئن ہیں، عمران نیازی عدالتی جائزے کے لیے آئندہ تاریخِ سماعت سے پہلے بیان حلفی داخل کریں۔ فردِ جرم کے لیے آئندہ دسماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عدالت عمران خاں کے بیان سے مطمئن ہے تو پھر فردِ جرم کیوں؟۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ کہ کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود ہے کہ فردِجرم عائد کرنے کے لیے بنچ بیٹھے اور ملزم کے معافی مانگنے پر فردِجرم کی تاریخ بڑھاتے ہوئے بیانِ حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی جائے؟۔ سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دانیال عزیز، طلال چودھری اور نہال ہاشمی کو سزا سنائی گئی حالانکہ یہ تینوں اصحاب عدالت سے معافی مانگتے ہوئے اپنے آپ کو اُس کے رحم وکرم پر چھوڑ چکے تھے۔ اب اگر عمران خاں کی معافی قبول کی جاتی ہے تو کیا اُنہیں سزا ہوگی یا نہیں؟۔ اگر سزا نہیں ہوتی تو پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کی کیا حیثیت باقی رہ جائے گی؟۔ کیا عدل کی تاریخ ایک دفعہ پھر دہرائی جائے گی کہ حمزہ شہباز کی وزارتِ اعلیٰ کے انتخاب میں تحریکِ انصاف کے 25 منحرف ارکانِ پنجاب اسمبلی کا ووٹ شمار کرنے سے سپریم کورٹ نے روک دیا۔ پھر بنچ بھی وہی اور معزز سپریم کورٹ بھی وہی لیکن حمزہ شہباز کے وزارتِ اعلیٰ کے دوبارہ انتخاب میں قاف لیگ کے 10 منحرف ارکان کے ووٹ شمار کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ اب چونکہ توہینِ عدالت کا کیس معزز عدلیہ کے ہاں زیرِسماعت ہے اور فیصلہ آنا باقی ہے اِس لیے ہم اِس پر کوئی تبصرہ بھی نہیں کر سکتے۔ یہ مگر بتانا ضروری ہے کہ عمران خاں کے وکیل حامد خاں کا کہنا ہے ”عمران خاں نے غیرمشروط معافی نہیں مانگی
بلکہ یہ کہا ہے کہ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ کوئی ریڈ لائن کراس کی ہے تو اِس کی معافی مانگنے کو تیار ہیں“۔ جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حامد خاں نے کہا ”غیر مشروط معافی کا مطلب توہین کا اقرار کرنا ہوتا ہے جبکہ عمران خاں کا مؤقف یہ ہے کہ اُنہوں نے توہینِ عدالت نہیں کی۔ جو پہلے مؤقف اپنایا تھا اب بھی وہی مؤقف ہے اور حلف نامہ بھی اِسی پیرائے میں ہوگا“۔ اگر حامد خاں کے اِس بیان کے مطابق ہی بیانِ حلفی جمع کروایا گیا تو پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز بنچ کے لیے سوائے سزا تجویز کرنے کے اور کوی راہ باقی نہیں بچے گی۔ اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ بیانِ حلفی میں نہ صرف جرم قبول کیا جائے گا بلکہ اپنے آپ کو عدالت کے رحم وکرم پر بھی چھوڑا جائے گا۔ ایسی صورت میں بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے سپریم کورٹ کی نظیر موجود ہوگی جس سے مفر ممکن نہیں۔
ڈَٹ کر کھڑے ہو جانے کا درس دینے والے عمران خاں نے 21 ستمبر کو شیر اور گیدڑ کی مثال دی اور اگلے ہی دن 22 ستمبر کو اُنہوں نے اُس وقت اپنے آپ کو گیدڑ ثابت کر دیا جب روسٹرم پر آکر عدالت سے معافی کے طلبگار ہوئے۔ تحقیق کہ عزت اور ذلت اُس مالک ومختارِکُل کے اختیارمیں ہے۔ عمران خاں کی سیاست کامگر نکتہئ ارتکاز ہی یوٹرن ہے جس کا عزت وذلت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اُنہی کے الفاظ ہیں کہ امداد کی اپیل اُن سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ اُنہیں اِس کا 30 سالہ تجربہ ہے لیکن 23 ستمبر کو سٹوڈنٹس کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے اپنے ہی بیان کی نفی یوں کی ”شہباز شریف ہر جگہ جا کر کہتے ہیں کہ میں مجبور ہوں، مانگنے نہیں آیا۔ شہباز شریف ہر جگہ پاکستان کو ذلیل کرواتے ہیں“۔ حقیقت مگر یہ کہ عمران خاں کی ساری زندگی امداد کی اپیلیں کرتے ہوئے گزری لیکن یہ اپیلیں ملک وقوم کے لیے نہیں بلکہ یا تو اپنی ذات یا پھر سیاست کے لیے کی گئیں (فارن فنڈنگ کیس میں یہ ثابت ہو چکا)۔ اب بھی تحریک چلانے کے لیے عمران خاں فنڈ اکٹھا کرنے کی متواتر اپیلیں کر رہے ہیں لیکن میاں شہباز شریف نے اقوامِ متحدہ میں اقوامِ عالم کو خبردار کیا کہ پاکستان میں آنے والی تباہی اُس موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہے جس میں پاکستان کا کوئی حصّہ نہیں۔ اُنہوں نے سیلاب سے پھیلی ہوئی تباہی کے ذمہ دار عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے اقوامِ عالم کو سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے قدم بڑھانے کی اپیل کی۔ عمران خاں تو اِس وقت اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں جبکہ میاں شہبازشریف دنیا کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے امداد پر قائل کر رہے ہیں۔ یہی فرق ہوتا ہے ایک لیڈر اور اقتدار کی ہوس میں مبتلاء شخص میں۔ رَبِ کریم تو دنیا میں ہی اپنی نشانیاں ظاہر کر دیتے ہیں لیکن یہ نشانیاں عقل والوں کے لیے ہوتی ہیں۔ جس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ حکم دیا جا رہا تھا ”عمران احمد خاں نیازی ولد اکرام اللہ نیازی حاضر ہو“ تو دوسری طرف اقوامِ متحدہ کے ہال میں یہ اعلان گونج رہا تھا ”وزیرِاعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف تشریف لا رہے ہیں“۔ میاں شہباز شریف نے اپنے خطاب کا آغاز فرقانِ حمید کی سورۃ الزمرکی آیت سے کیااور پھر اقوامِ عالم کے سامنے بھرپور انداز میں پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔ عمران خاں کے پیروکاروں کو میاں شہباز کی تقریر سے اگر کچھ ملا تو صرف یہ کہ اُنہوں نے تھوک لگا کر صفحہ پلٹا۔ ہمارا خیال ہے کہ میاں شہباز شریف نے یہ عادت عمران خاں ہی سے سیکھی ہے کیونکہ وہ تھوک لگا کر ہی صفحے پلٹتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے توسوشل میڈیا پرحسن نثار کی وائرل ویڈیو دیکھ لیں جس میں حسن نثار نے کہا ”ٹی وی پر بیٹھ کر وہ تھوک سے ڈاکومنٹس کے صفحات پلٹ رہے تھے“۔
اب کچھ باتیں صابق وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کی جنہوں نے وطن واپسی کے لیے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی۔ احتساب عدالت نے اُن کی درخواست منظور کرتے ہوئے اُنہیں 7 اکتوبر تک راہداری ضمانت دی اور نیب کو اُن کی گرفتاری سے روک دیا۔ اب 7 اکتوبر کو احتساب عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے بعد عدالت اُن کی مستقل ضمانت کا فیصلہ کرے گی۔ اُمیدِواثق یہی ہے کہ احتساب عدالت اُن کی مستقل ضمانت منظور کر لے گی کیونکہ اُن پر نیب نے آمدن سے زائد اثاثوں کا جو کیس درج کرایا ہے اُس کا کوئی ثبوت، بنیاد اور نہ گواہ۔ وطن واپس آکر اسحاق ڈار سینٹ میں بطور سینیٹر حلف اُٹھائیں گے اور پھر وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالیں گے کیونکہ مفتاح اسماعیل صرف وسط اکتوبر تک ہی وزیرِخزانہ کا قلمدان سنبھال سکتے ہیں۔ مقررہ مدت کے خاتمے کے بعد مفتاح اسماعیل کو وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے لیے یا تو سینیٹر کا انتخاب لڑنا ہو گا یا پھر رُکنِ قومی اسمبلی کا، جس کا فی الحال تو کوئی امکان نہیں۔ اسحاق ڈار کے بارے میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ وہ لفظوں کے جادوگر نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسحاق ڈار ملک کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دے پائیں گے؟۔ ہمارا خیال ہے کہ وہ عبد الحفیظ شیخ، شوکت ترین اور مفتاح اسماعیل سے کہیں بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ اگر ملکی معیشت کی ڈوبتی نیّا کے پتوار چیلنج سمجھ کر اسحاق ڈار سنبھال لیں تو بہتری کے آثار نظر آنے لگیں گے۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔