نیویارک :وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکہ میں افغانستان سے متعلق ہونے والی گفتگو سے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ نے پاکستان کی بات وقت سے پہلے تسلیم کی ہوتی تو شاید آج افغانستان میں حالات تھوڑے مختلف ہو تے ،افغانستان میں امریکہ کو شکست کا ذمہ دار کوئی اور نہیں اشرف غنی حکومت تھی جس نے امریکہ سمیت افغان عوام کو بھی دھوکہ دیا ۔
امریکہ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کو کامیابی دراصل سابق صدر اشرف غنی اور ان کی انتظامیہ کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ملی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کووڈ 19 کی وجہ سے ملک کو درپیش چیلنجز، معاشی بحران اور بالخصوص افغانستان پر جس مؤثر انداز میں نقطہ نظر پیش کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔انہوں نے کہاکہ بھارت میں انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق بھی وزیر اعظم عمران خان نے تفصیل سے بات کی اور ان کے غیر انسانی سلوک کو بے نقاب کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی ترقی کے لیے اربوں ڈالر آئے تاہم ان کا کچھ معلوم نہیں ہے، وہ ہوا میں اڑ گئے،وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے عوام امن کے خواہش مند تھے اور ہیں جو اشرف غنی اپنے دور اقتدار میں نہیں دے سکے، میری نظر میں افغان عوام کا جھکاؤ اس طرف ہوگا جہاں انہیں امن کی امید ہوگی۔
امریکی توقعات اور پاکستانی خواہش سے متعلق سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ ہماری ملاقات کا مقصد یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم نے ہاتھ پھیلائے ہیں، ملاقات کا مقصد نقطہ نظر پیش کرنا ہے اور جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوجائیں۔انہوں نے کہا کہ انہیں پاکستان کے حوالے سے بعض امور پر غلط فہمی ہے جبکہ ہماری کوشش رہی کہ انہیں باور کرایا جائے کہ انہیں پاکستان کو کس انداز میں دیکھنا چاہیے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ امریکی حکام سے ہونے والے نشست مفید تھی اور امید ہے کہ آئندہ بھی مختلف امور پر تبادلہ خیال کی گنجائش رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ امریکی حکام سے افغانستان کا معاملہ زیر بحث آیا اور دونوں اطراف سے افغانستان میں مربوط حکومت پر آمادگی کا اظہار کیا گیا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کے معاملے میں دھمکی سے نہیں بلکہ صبر و تحمل، آمادگی اور تبادلہ خیال پر مبنی حکمت عملی ہونی چاہیے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خبردار کیا کہ اگر افغانستان کی نئی سیاسی پیش رفت سے متعلق غلط فیصلے کیے تو حالات بگڑ سکتے ہیں، اس کے اثرات محض افغانستان یا پاکستان نہیں بلکہ خطے سے نکل کر دوسرے ممالک میں بھی محسوس کیے جائیں گے۔