انتخابات کو صاف و شفاف بنانے اور عوام اور اپوزیشن کے شکوک و شبہات سے پاک کرنے کے لئے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا استعمال ایک سنجیدہ قومی مسئلہ ہے، حکومت اس کو ایسے دیکھ رہی ہے جیسے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اس کے تکنیکی پہلوؤں پر بحث ہونی چاہیے تاکہ تمام لوگوں کے تحفظات دور ہو سکیں۔ عوام اور اپوزیشن کو یہ پتہ چل سکے کہ اس کے کیا فوائد اور نقصانات ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے جو بیان بازی ہورہی ہے اس میں سنجیدگی کم اور سیاسی کج بحثی کا عنصر زیادہ ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ووٹنگ مشین متعارف کرانے پر 37 اعتراضات اُٹھا دئیے جسے ایک وفاقی وزیر نے ای وی ایم کے خلاف قتل کی ایف آئی آر قرار دیا ہے۔ای سی پی نے سینیٹر تاج حیدر کی صدارت میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کو پیش کیے گئے ایک دستاویز میں خبردار کیا کہ مشین میں چھیڑ چھاڑکی جا سکتی ہے اور اس کا سافٹ وئیر آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ اس بات کو یقینی بنانا تقریباً ناممکن ہے کہ ہر مشین ایمانداری سے کام کر سکے۔سول سوسائٹی کے نمائند وں نے بھی اجلاس میں شرکت کی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ای وی ایم اور انٹر نیٹ ووٹنگ متعارف کرانے کے دونوں منصوبوں کی مخالفت کی۔الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے خواہاں دو متنازع بلوں پر ووٹنگ کے لیے ای سی پی نے اعتراضات سینٹ پینل کو اپنے شیڈول سے ایک روز پہلے جمع کرائے تھے۔
ای سی پی کے خصوصی سیکرٹری ظفر اقبال حسین اور ڈائریکٹر جنرل آئی ٹی خضر عزیز نے اجلاس میں شرکت کی۔ای سی پی کا کہا کہ ای وی ایم کی بڑے پیمانے پر خریداری اور تعیناتی اور آپریٹرز کی بڑی تعدادکو ٹریننگ دینے کے لیے وقت بہت کم ہے۔ایک ہی وقت میں ملک بھر میں ای وی ایم متعارف کرانا مناسب نہیں ہے قانون کے تحت ضرورت کے مطابق ایک دن میں پولنگ تقریباً ناممکن ہوگی۔
ای سی پی نے ای وی ایم کے استعمال سے منسلک دیگر کئی مسائل کا بھی حوالہ دیا جس میں بیلٹ کی رازداری ہر سطح پر صلاحیت اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے دوران سنبھالنے کا فقدان شامل ہے۔اس صورتحال میں انتخابی تنازع کی صورت میں کوئی ثبوت دستیاب نہیں ہوگا۔بیلٹ پیپر میں تبدیلی کے حوالے سے آخری لمحات میں عدالتی احکامات کی وجہ سے ڈیٹا انٹیگر یشن اور کنفیگریشن کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔وزیراعظم کو پاکستان کی تیار کردہ ووٹنگ مشینز پر بریفنگ میں الیکشن کمیشن پاکستان نے کہا کہ مشین رکھنے کے لیے دھول اور نمی سے پاک مناسب درجہ حرارت کے ماحول کے گودام کی عدم موجودگی بھی ایک مسئلہ ہے۔اس کے علاوہ تکنیکی آپریٹرز کے لیے سیکھنے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں ای وی ایم پر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان کوئی اتفاق رائے نہیں تھا جو مالی طور پر بھی درست ثابت نہیں ہوگی۔
ای سی پی نے کہا کہ ای وی ایم ووٹرز کی کم تعداد خواتین کا کم ٹرن آؤٹ،ریاستی اختیارات کا غلط استعمال،انتخابی دھوکہ دہی، الیکٹرانک بیلٹنگ، ووٹ خریدنا،امن و امان کی صورتحال، پولنگ کا عملہ،بڑے پیمانے پر سیاسی اور انتخابی تشدد اور ریاست کے ساتھ زیادتی کو نہیں روکا جا سکتا۔جلد بازی میں ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی صورت میں آئین کے مطابق آزاد،منصفانہ،قابل اعتماد اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔اور اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ جرمنی،ہالینڈ، آئر لینڈ، اٹلی اور فن لینڈ نے سکیورٹی کی کمی کی وجہ سے ای وی ایم کا استعمال ترک کر دیا ہے۔
ایک اجلاس میں الیکشن کمیشن پاکستان نے یہ بھی کہا کہ کہ ہم ای وی ایم ٹیکنالوجی کے حق میں ہیں لیکن اسے محفوظ اور آزمایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے ہونا چاہیے اور غیر ضروری جلد بازی میں ای وی ایم کو متعارف نہیں کرانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم یہاں پہیے کو دوبارہ ایجاد کرنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ایک باخبر فیصلہ لیا جانا چاہیے اگر کوئی تحفظات ہیں تو حکومت اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
اس ای وی ایم سے حکومت کو زیادہ فائدہ ہے وہ اس طرح کہ اس مشین کے ذریعے غیر ممالک میں مقیم پاکستانی بھی اپنا ووٹ کاسٹ کر سکیں گے۔وہ لوگ جو پاکستان میں رہ رہے ہیں وہ تو پی ٹی آئی سے تنگ آچکے ہیں اور پی ٹی آئی کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے ان کے ووٹ بنک میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور اب پی ٹی آئی یہ چاہتی ہے کہ وہ ای وی ایم کے ذریعے غیر ملک میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ حاصل کر کے وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے۔ مگر اپوزیشن اس بات کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کو اس میں اتنی جلدی کیوں ہے۔مغربی ممالک اور امریکہ میں بھی ایک دم سے عوام ای وی ایم پر نہیں گئی تھی ان ممالک کو بھی 15سے 25 برس لگے تھے تب جا کر عوام اور تمام سیاسی جماعتوں کا ای وی ایم پر اطمینان ہوا تھا۔ پاکستان کو بھی ایک نہ ایک دن ای وی ایم پر جانا ہو گا لیکن اس کیلئے وقت درکار ہے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے تحفظات دور ہو سکیں۔