منشی پریم چند نے اپنے افسانے ”کفن“ میں انسانی معاشرے کے ایسے رویے کو قلم بند کیا ہے جسے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس کہانی کے کردار ہمارے ارد گرد بھی موجود ہیں۔ افسانہ ”کفن“ میں باپ اور بیٹا مرکزی کردار تھے۔ اُن کا تعلق غریب طبقے سے تھا مگر دونوں بہت سست، کام چور اور نااہل تھے۔ ان کا گاؤں کسانوں کا تھا جہاں تھوڑی سی محنت کرکے مناسب روزگار کمایا جاسکتا تھا لیکن دونوں محنت مزدوری کو حرام سمجھتے تھے۔ گاؤں کے لوگوں نے اُن سے مزدوری کرانی چھوڑ دی تھی کیونکہ ان کے ذمے جو کام بھی لگایا جاتا وہ ادھورا رہتا۔ وہ باپ بیٹا گاؤں والوں سے مانگ مانگ کربھی بدنام ہوچکے تھے۔ اب انہیں ایک ٹکا کوئی خیرات میں بھی نہ دیتا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ دونوں باپ بیٹا صحت مند اور مزدوری کے قابل ہیں لیکن صرف کام چوری اور مانگے تانگے کی آسان آمدنی حاصل ہونے کے باعث محنت مزدوری نہیں کرتے۔ بیٹے کی جواں سال بیوی اپنی ہمت کے مطابق مزدوری کرکے سسر اور خاوند کے لئے زندہ رہنے کا کچھ نہ کچھ سبب کردیتی۔ دن گزرتے گئے اور بیٹے کی بیوی زچگی کے عمل سے دوچار ہوئی۔ بیوی یخ سرد رات کی تاریکی میں جھونپڑی کے اندر فرش پر لیٹی درد سے بری طرح کراہ رہی تھی۔ دونوں باپ بیٹا جھونپڑی کے باہر خشک پتے جلا کر آگ سینک رہے تھے۔ دونوں بیوی کی بیماری اور اپنی کام چوری کے باعث کئی دنوں سے فاقے سے تھے۔ کہیں سے ان کے ہاتھ دو آلو لگ گئے جو وہ اِس آگ میں بھون رہے تھے۔ باپ نے بیٹے کو کہا کہ تمہار ی بیوی مصیبت میں مبتلا ہے۔ بیٹے نے کاہلی سے کہا کہ میں کیا کرسکتا ہوں۔ اگر بچہ ہو گیا تو پتہ چل جائے گا لیکن ہم اسے کھلائیں گے کہاں سے؟ باپ نے کہا کہ بچے کے کھانے کی فکر نہ کرو۔ گاؤں والے ترس کھا کے کچھ نہ کچھ دے دیں گے۔ جیسا کہ ہمیں بھی کبھی کبھی مل جاتا ہے۔ دونوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ بیوی جھونپڑی میں اکیلی تڑپ رہی تھی۔ باپ بیٹا آگ میں رکھے
آلو نکال کر جلدی جلدی کھانے لگے۔ دونوں اپنی بھوک سے اتنے بے صبرے ہو رہے تھے کہ گرم آلو کھانے سے ان کی زبانیں جلنے لگیں لیکن وہ انگارے آلو پیٹ کی جہنم میں اتارتے رہے۔ باپ نے اپنی جوانی کا ایک واقعہ لذت لیتے ہوئے بتایا کہ بہت پہلے وہ ایک بڑے زمیندار کی بارات میں شامل ہوا جہاں اسے بہت سی پوریاں، حلوہ اور کھانے کی لذیذ چیزیں ملیں۔ اس کے بعد آج تک اس نے ویسا کھانا نہیں کھایا۔ بیٹے نے جلتے ہوئے آلو کا آخری ٹکڑا براہ راست گلے میں اتارتے ہوئے باپ کے اُس کھانے کی لذت اپنی زبان پر محسوس کی اور حسرت سے پوچھا وہاں بارات میں تم نے پچاس پوریاں تو ضرور کھائی ہوں گی۔ باپ نے اُس پیٹ بھر بھوک مٹاؤ دن کی یاد میں کھو جاتے ہوئے کہا دعوت میں کوئی روک ٹوک نہ تھی جو جتنا چاہتا کھاتا۔ جھونپڑی میں پڑی بیوی کی چیخوں سے آگ کے شعلوں کوبھی پسینہ آرہا تھا مگر دونوں باپ بیٹا مختلف کھانوں کی لذتوں پر بات کرتے جارہے تھے۔ آلو کھانے کے بعد دونوں وہیں آگ کے قریب پڑکر سو رہے۔ صبح اُن کی آنکھ کھلی تو جھونپڑی میں خاموشی تھی۔ انہوں نے اندر جھانکا۔ بیوی ٹھنڈی ہو چکی تھی، بچہ پیٹ کے اندر ہی مرگیا تھا اور لاش پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ دونوں باپ بیٹے نے ڈرامائی انداز میں اِس موت پر اونچا اونچا رونا شروع کردیا اور بین کرتے ہوئے بیوی کی زچگی کی تکلیف کا ذکر کرنے لگے۔ گاؤں والے جو باپ بیٹے کی کاہلی اور سستی کی بنا پر اُن سے نفرت کرتے تھے جواں سال بیوی کی موت کے باعث ان کی طرف متوجہ ہوئے۔ گاؤں والوں میں سے کوئی لکڑیاں لے آیا اور کوئی آٹا۔ گاؤں کا زمیندار جو اُن دونوں کام چوروں کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا نے ترس کھا کر کفن کے لیے دو روپے ان کی طرف پھینک دیے اور کچھ دوسروں نے ٹکا ٹکا چندہ دیا۔ اس طرح کفن کے لیے کل ملاکر اُنہیں پانچ روپے مل گئے۔ اب باپ بیٹا کفن لانے کے لیے شہر روانہ ہوئے۔ باپ اور بیٹے نے آپس میں مشورہ کیا کہ کفن مہنگا نہیں لینا چاہئے کیونکہ وہ لاش کے ساتھ ہی جل جائے گا اور پیسے ضائع ہو جائیں گے۔ وہ سستا کفن خریدنے کے لیے بازار میں پھرتے رہے۔ دونوں ایک دوسرے کی نیت جان چکے تھے۔ اب رات ہونے والی تھی۔ دونوں ایک ہوٹل کے پاس رکے۔ باپ نے کہا کہ بہت بھوک لگی ہے۔ بیٹے نے کہا کہ میری بیوی کے کفن کا کیا ہوگا؟ باپ نے جواب دیا بیوی کے کفن کی فکر نہ کرو۔ گاؤں والوں نے ہمارے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے لکڑیاں پہلے ہی اکٹھی کردی تھیں۔ اب ہم انہیں کہیں گے کہ ہم سے کفن کے پیسے کھو گئے، اِس پر وہ لوگ کسی پرانی چادر کو لے کر کفن بھی بنا دیں گے۔ بیٹے نے بھی باپ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اِس کے بعد دونوں ہوٹل میں گئے اور کھانے پینے کا آرڈر دے دیا۔ کفن کے پیسوں سے بل ادا کرکے جب وہ کھانے پینے سے فارغ ہوئے تو بوتل کا سرور اُن پر چڑھ چکا تھا۔ باپ نے کہا کہ کتنی اچھی تھی وہ بیچاری، مرکر بھی ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کرگئی۔ بیٹے نے بھی جھومتے ہوئے کہا کہ جب تک زندہ رہی تب بھی ہمیں کچھ نہ کچھ کھلاتی رہی۔ دونوں نے آسمان کی طرف انگلیاں اٹھاکر ناچتے ہوئے کہا کہ وہ نیک عورت مرکر بہت اچھی جگہ جائے گی۔ اسی دوران ایک بھکاری ان کے پاس آیا۔ بیٹے نے بچا کچھا کھانا اکٹھا کرکے اُسے دیا اور بوتل کے آخری گھونٹ چڑھاتے ہوئے بھکاری سے بولا کہ وہ مرگئی لیکن ہم سب کے کھانے پینے کا بندوبست کرگئی، تم بھی اُس کے لیے دعا کرنا۔ یہ کہانی تو ختم ہوگئی لیکن تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پاکستانی عوام کی غربت اور مظلومیت کا بین کرکے تین برس سے جس طرح جگہ جگہ ہاتھ پھیلاتی آرہی ہے وہ کہانی ابھی جاری ہے۔ پاکستان کے عوام ہمیشہ سے ہی اپنی ہمت کے مطابق محنت کرکے حکمرانوں کا پیٹ پالتے آئے ہیں لیکن اب کسی مربوط معاشی پالیسی کے بغیر تحریک انصاف جس طرح پچھلے حکمرانوں کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرکے معیشت چلانے کے لئے کفن نما قرضے حاصل کررہی ہے اُس کا انجام بھی کہیں مندرجہ بالا کہانی میں بیوی کی زچگی کی رات جیسا نہ ہو جائے اور تحریک انصاف والے یہ کہتے پھریں کہ بیچارے عوام بہت اچھے تھے، انہوں نے مرکر بھی ہماری خوراک کا بندوبست کردیا۔