جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہئ گندم کو جلا دو
قبلہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ جن کے فقر و افکار ایرانی انقلاب کے نقیب ٹھہرے ڈاکٹر علی شریعتی جو ایران کے فکری پیشوا ہیں، وہ اتنے متاثر ہیں کہ علامہ اقبال ؒ کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔ حتیٰ کہ علامہ صاحب کے بارے کہتے ہیں کہ ”اسلام کی حقانیت کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو گا کہ اقبالؒ جیسا شخص عالم اسلام میں پیدا ہو گیا ہے“۔
جن ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا میونج یونیورسٹی میں پڑھا ہوا مقالہ، تاریخی حوالہ اور بین الاقوامی اثاثہ بن جائے۔ان کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے مولانا جلال الدین رومیؒ، تصوف کی دنیا کے بادشاہ ابن عربیؒ، ابو المعانی مرزا عبدالقادر بیدلؒ، مرزا نوشہ جناب اسد اللہ خان غالب حتیٰ کہ کارل مارکس سے ہوتے ہوئے محترم ڈاکٹر محمد جہانگیر تمیمیؒ کی کتابوں سے گزرنا پڑتا ہے تا کہ قبلہ حضرت ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے شعور، تصوف، کشف، حب انسانیت، فکرِ انسان سازی، مؤدت آقا کریمﷺ، آلِ رسول اور تحریروں سے کچھ نہ کچھ آ گہی مل سکے۔ دیکھا گیا ہے کہ علامہ صاحبؒ کو پڑھنے، ان کی فکر کی پیروی کرنے والے خود معاشرت کا قیمتی سرمایہ بن گئے اور کہاں جناب حضرت علامہ اقبالؒ۔ کاش ان کے افکار کو سمجھنے کی ہمارے دانشوروں میں اہلیت ہوتی جبکہ عام آدمی علامہ صاحبؒ کو بخوبی جانتا ہے کہ وہ انسان کو اور خصوصاً مومن کو کیسے فرش سے عرش تک پہنچنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ چند سال پہلے انہی اخبارات میں قبلہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے اس مصرعہ
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
کا کچھ ”دانشور“ مذاق اڑاتے رہے پھر قدر ت نے دکھایا کہ اگر ماضی یاد ہو تو انگلستان کی نصیحت جوکہ اب وصیت بن گئی کہ افغانستان کو کبھی مقبوضہ رکھنے کا خیال دل میں نہ آنے پائے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ دو سپر طاقتیں باری باری افغانستان پر جدید اسلحہ، ٹیکنالوجی، مال متاع اور عسکری زور آوری کے ساتھ دنیا کے طاقتور ممالک اور خطے کی قوتوں کو ساتھ ملا کر افغانستان پر قابض ہوئیں اور آج افغانی اپنی سر زمین پر مکمل قابض ہیں۔ (دیکھ لیا قدرت، جذبہ اور حق ممولے کو باز کے ساتھ کیسے لڑا دیتا ہے) ان شاء اللہ یہ دن مقبوضہ کشمیر میں ہمارے کشمیری بہن بھائی بھی دیکھیں گے۔
بقول ڈاکٹر علی شریعتی ہر جگہ کربلا اور ہر گھڑی
عاشور کی گھڑی ہے۔یعنی معرکہئ حق و باطل جاری ہے۔ گویا حضرت امام حسین علیہ السلام (حسینیت)، حضرت حر(حریت) اور یزید (یزیدیت) ہر وقت موجود ہیں۔ اپنی اپنی سوچ، فکر فہم اور بصیر ت کی بات ہے۔ غازی علم الدین شہیدؒ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنی زندگی میں محسوس کیا، حسینیت کا درس سمجھا اور حر کی اتباع کرتے ہوئے حریت کی راہ لی اور سولی جھول گئے۔ میں کسی سیاسی رہنما اور گریٹ لیڈر کی بات نہیں کرتا کہ ان کی سولی کئی لوگوں کو سولی دکھائی دیتی ہے۔میں حضرت غازی علم الدین شہیدؒ کی سولی کی بات کرتا ہوں جنہوں نے یزیدیت دیکھی یزید نہیں دیکھا۔ گویا حسین علیہ السلام ہر وقت ہے حر بننے کے لیے متاع زندگی قربان کرنا پڑتی ہے۔ دنیا کا مال و متاع پانے پر لوگ شاید شکر بھی کرتے ہیں جبکہ شکر دی گئی سہولت کو بڑھا دیتا ہے لہٰذا شکر کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ معاملہ استغفار کا تو نہیں؟ کہیں اہل اقتدار سے قرب پا کر جاہ و حشمت پر شکر کر بیٹھے مگر معاملہ استغفار کا ہو۔ اللہ رب العزت نے ارواح کو اکٹھا پیدا کیا اور وقت مقررہ تک ایک تقدیر کے ساتھ جسم دیا کہ وہ دیکھ سکے اس کا بندہ کون ہے؟ جسم و روح و بدن کا یہ دورانیہ روح کی تخلیق سے عالم ارواح تک واپس پہنچنے کے دوران ایک قلیل ترین وقفہ ہے۔ اسی وقفے میں سب کچھ ہے جو آگے بھیجا ہو گا مع نفع یا نقصان وصول پائے گا۔ اللہ کی کائنات کا کاروبار اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس روح کو کب بدن اور وجود عطا کرنا ہے اور کب دنیا سے بھیجنا اور واپس بلانا ہے لہٰذا اس کی ترتیب پر کوئی مخل نہیں ہو سکتا ورنہ آقاؐ کے ہر غلام کی خواہش کہ وہ اس دور میں دنیا میں آتا کہ جب آقا کریمؐ کی معطر سانسوں کی مہک فضاؤں میں موجود تھی مگر رک جانا چاہیے کہ خادم قصوا (اونٹنی سواری آقا کریمؐ) میں شمار ہوتا یا اس وقت کی اشرافیہ میں۔ مبادہ حضرت علی علیہ السلام کی ذوالفقار، حضرت خالد بن ولید ؓ کی یلغار، حضرت عمر ؓ کی تلوار کی ضد میں گردن کا آ جانا مقدر نہ بن جاتا۔ بات اور کہیں نکل گئی قبلہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ خو شہ گندم والا یہ شعر ایک استعار ہ ہے۔انقلابی زبان ہے اور اس کو قدرت کے اس کار خانے میں کئی بار عملی طو ر پر دیکھا۔ کیا سورج نے دونوجوانوں کے ہاتھوں ابو جہل اور ظالم امیہ بن خلف حضرت بلال ؓبن رباع کے مالک کو ان کے ہاتھوں ڈھیر ہوتے ہوئے نہ دیکھا۔
یہ ضروری نہیں کہ انقلا بی کلمہ گو ہی ہوں بس انقلابی ظالم اور مظلوم کو تہہ و بالا کر دینے والے انقلا ب کی بات کرتا ہو جیسے ہما رے پنجابی زبان میں کہتے ہیں
بھٹ پوے اوہ سونا
جیہڑا کناں نوں کھاوے
وہ سونا بھٹی میں جلا دو جو کانوں کو ہی توڑ کر رکھ دے۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒکے تصوف،کشف،علم،شعورو فکر کو مجھ ایسا خو اب میں بھی محسوس کر جائے زند گی کا قرض اتر جائے اسلام،صونی ازم، محفل ارواح، زمان مکان کو بالا ئے طاق رکھ کر شعوری فکری سیاحت، فصاحت اورمراقبہ اور فیض یابی ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا ہی خا صا ہے۔
کالم کی مجبوری ہے اس کے لیے تفصیلاً پھر لکھیں گے کیونکہ علامہ صاحبؒ کی وادی میں اترنے کے سیکڑوں راستے ہیں صوفی ازم، کشف، حکمت، دانائی، تصوف، بصیرت، مولانا رومی، ابن علی، مرزا بیدل، غالب اور جہانگیر تمیمی کے علاوہ ان گنت، مگر باہر آنے کا کوئی راستہ نہیں۔ آج علامہ صاحبؒ کے اس شعر (استعارہ) پر عمل کی ضرورت ہے جب انسان کے پاس کچھ نہ ہو، جب بے کفن بیٹے دفن کرنا پڑیں، جب عید کی چوڑیاں اور مہندیاں خودکشیوں پر منتج ہوں، جب مسل کے زور پر عورت لوٹ لی جائے، جب خوجے گواہ چھوڑ خود ڈڈو بن جائیں۔(خوجہ خود ہی ڈڈو بن جائے اور خوجہ ڈڈو کہلائے)
جب حر ام ہی حرام، لوٹ مار اور جھوٹ، ظلم، منافقت، بیروزگاری، بے غیرتی کا دور دورہ ہو تو پھر حد یہ ہے کہ کوئی ہال روڈ پر کوئی مال روڈ پر، کوئی بندر روڈ پر، کوئی جی ٹی روڈ پر حتیٰ کہ کراچی سے خیبر تک ظلم کا بازار گرم ہو تو دل گھبرا جاتا ہے کہ زندگیاں نگلتا ہوا یہ زمانہ کب تک رہے گا۔ پھر حضرت اقبالؒ کا یہ شعر بھی ہمت دیتا ہے اور مولانا مودودی ؒ کا کہا ہوا بھی ”جو ضرورت سے زائد ہے اللہ کی راہ میں دے دو“۔ (آیت مبارکہ کا مفہوم) پر عمل یعنی نافذکرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ایسے میں گریٹ بھٹو پیدا ہوتا ہے۔ مگر یہ خون پینے والوں کے گماشتے بچوں پہ بچے جنم دیئے جا رہے ہیں جس دن اناج، گنا، صنعتوں، کھیتوں کھلیانوں، میڈیا ہاؤسز، بڑے صاحب کی چائے لانے والا مجاہد اگر سمجھ گیا کہ خوشہ گندم سے اگر کوئی اس کے حلق میں نہیں تو اس کا جلانا نئی زندگی اور تقدیر کی شروعات ہو گا۔جس کو سہولت پسندوں کو سمجھانے کے لیے غالب کچھ یوں کہتے ہیں
ہوا جب غم سے یوں بے حس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا