اسلام آباد: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس سے ویڈٰیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ شہریوں کو حقوق دینے کیلئےامن کی ضرورت ہے اور ہم خطے میں امن چاہتے ہیں اس کے علاوہ ہم کثیر الجہتی اشتراک سے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ جب سے ہماری حکومت آئی ہم نے عوام کی بہتری کیلیے کوششیں کیں۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے پاکستان میں ہم نےسخت لاک ڈاؤن نہیں کیا اور پاکستان نےاسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی کیونکہ کورونانےدنیا بھر میں غریب اور نادار افراد کو سخت متاثر کیا اور دنیا میں جب تک ہر شخص محفوظ نہیں تو کوئی شخص محفوظ نہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 8 ارب ڈالر سے صحت کی سہولیات اور غریب افراد کی مدد کی گئی اور حکومت کی تمام پالیسیوں کامقصد شہریوں کےمعیار زندگی میں اضافہ ہے کیونکہ ہم نے نبی پاک ﷺ کی ریاست مدینہ کے تصور پر نئے پاکستان کا ماڈل تشکیل دیا ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے ہم نے3سال میں 10ملین درخت لگانےکا منصوبہ بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وبا انسانیت کو متحد کرنے کے لیے ایک موقع تھا لیکن بدقسمتی سے قوم پرستی، بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مذہبی سطح پر نفرت میں اضافہ ہوا اور اسلاموفوبیا بھی سر چڑھ کر بولنے لگا۔ہمارے مقدس مزارات کو نشانہ بنایا گیا ہمارے پیغبمر ﷺ کی گستاخی کی گئی، قرآن پاک کو جلایاگیا اور یہ سب کچھ اظہار آزادی کے نام پر کیا گیا جبکہ چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کی بات کی جو حالیہ مثال ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہہ دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلاموفوبیا ہے اس کی وجہ آر ایس ایس کے نظریات ہیں جو بدقسمتی سے بھارت میں حکمران ہے۔بھارت دنیا میں اسلامو فوبیا کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ بھارت میں آر ایس ایس کا نظریہ غالب ہے جبکہ مودی کی حکومت کی جانب سے گاندھی اور نہرو کا نظریہ آر ایس ایس نظریے میں بدل دیا گیا جبکہ 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور گجرات میں قتل عام نریندر مودی کی سرپرستی میں ہوا۔ آر ایس ایس نے 1992 میں مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کیا جبکہ انتہا پسند نظریے کی تشکیل 1920 کی دہائی میں کی گئی اور اس کے بانی اراکین نازی نظریات سے متاثر تھے، نازی یہودیوں کو نشانہ بناتے تھے اور آر ایس ایس مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا بھارت کو ہندو ریاست بنانے کیلئے مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور آسام میں 20 لاکھ مسلمان شہریت سے محروم کر دیئے گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت اپنے غیر قانونی اقدام سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ فاشسٹ بھارتی حکومت کی جانب سے اشتعال انگیزی کی گئی تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کی تو قوم بھرپور جواب دیگی۔ پاکستان ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر بھارتی جارحیت کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ہماری خارجہ پالیسی کامقصد ہمسایوں کیساتھ اچھے تعلقات،مسائل کابات چیت سےحل ہے اور ہم اس موقع پر امن ، استحکام اور پر امن ہمسائیگی کے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں جبکہ اسی صورت ہم عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو بھی پورا کر سکتے ہیں ، لیکن نئی مخالف طاقتوں کے درمیان اسلحے کی نئی دوڑ چل رہی ہے۔ بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں اڑائیں جا رہی ہیں جبکہ فوجی قبضے اور غیر قانونی توسیعی پسندانہ اقدامات سے حق خودارادیت کو دبایا جا رہا ہے۔
عمران خان نے اپنے خطاب کے دوران عالمی برادری کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امیر ممالک منی لانڈرنگ کرنے والوں کو تحفظ دے کر انصاف اور انسانی حقوق کی بات نہیں کر سکتے۔ جتنی امداد ترقی پذیر ملکوں کو ملتی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ رقم باہر جاتی ہے۔ جنرل اسمبلی کو غیر قانونی رقوم کی منتقلی کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے مناسب فریم ورک تشکیل دینا چاہیے۔ ترقی پذیر ملکوں کی دولت بیرون ملک منتقل کی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس منی لانڈرنگ کو روکنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ امیر ملکوں میں اس مجرمانہ سرگرمی روکنے کی ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک نے رقوم کی منتقلی ان کی غربت کا باعث بن رہی ہے۔
وزیراعظم کا اقوام متحدہ میں کئے جانے والے گزشتہ خطاب کا پس منظر
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ کشمیر کا معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور یہ میرا اہم مقصد ہے لیکن پہلے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں جنگ کے خلاف ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور فوج نے مجاہدین کی مدد کی جس کی معاونت دیگر ممالک نے کی جن میں خاص کر امریکا شامل تھا اور ان مجاہدین کو روس نے دہشت گرد کہا لیکن ہمارے لیے وہ فریڈم فائٹر تھے اور جب امریکا افغانستان میں آیا تو ہم اس کے اتحادی تھے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس جنگ میں ہمارے 70 ہزار افراد جاں بحق ہوئے اور معاشی حوالے سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اپنے خطاب میں بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کے ساتھ باہمی مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار تھے اور میں نے وزیراعظم نریندر مودی سے بھی کہا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پاکستان میں کوئی شدت پسند تنظیم نہیں لیکن بھارت ہم پر الزام لگایا، ہم نے حکومت میں آنے کے بعد ان گروپس کے خلاف کارروائی کی اور اب وہاں اس طرح کے کوئی گروپس نہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصر گروپ کو دعوت دی تھی، یہ دہشت گرد گروپس کسی کے حق میں نہیں کیونکہ اس سے ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ مبقوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اور 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ لوگوں کو محصور کر دیا گیا۔ بھارت میں آر ایس ایس کی حکمرانی ہے جو ہٹلر کے نظریے کی حامی ہے اور مودی کی وزارت اعلیٰ کے نیچے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور مودی آر ایس ایس کے تاحیات رکن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جب کرفیو ہٹا لیا جائے گا اور لوگ باہر آئیں گے جہاں 9 لاکھ فوجی تعینات ہیں اس صورت میں خون ریزی کا خطرہ ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سیکڑوں سیاسی رہنماؤں اور نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے حتیٰ کہ جو بھارت نواز کشمیری رہنما تھے انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا گیا ، کشمیریوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جا رہا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ 13 ہزار کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا اور پتہ نہیں انہیں کہا رکھا گیا ہے، کشمیری عوام کیا کریں گے؟ جب کرفیو ختم کیا جائے گا تو وہ باہر نکلیں گے اور ان پر قابض بھارتی فوجی گولیاں برسائیں گے، پہلے بھی ان کے خلاف پیلٹ گنز کا استعمال کیا جاتا رہا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ کرفیو اٹھاتے ہی کشمیر میں قتل عام شروع ہونے کا خدشہ ہے اور وہاں پھر سے ایک پلواما جیسا واقعہ رونما ہوگا اور اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا جائے گا۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی وزیر دفاع نے ہم پر الزام لگایا ہے کہ 500 دہشت گرد بھارت میں داخلے کے لیے تیار ہیں، پاکستان ایسا کیوں کرے گا، جب ہم جانتے ہیں کہ اگر بھارت میں کچھ ہوا تو اس کے نتیجے میں کشمیری عوام پر ظلم بڑھے گا، کیا ہم کشمیر میں قابض 9 لاکھ فوجیوں کو یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ کشمیریوں کو مزید دبائیں۔