اسلام آباد: پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر دہشتگردوں کے حملے کی فائنڈنگ رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملے سے متعلق نیکٹا نے وارننگ جاری کر رکھی تھی۔ نیکٹا وارننگ کے مطابق دہشتگرد کسی بھی آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنا سکتے تھے۔ دہشتگردوں کا مقصد فوجیوں کے بچوں کو نشانہ بنانا تھا۔ نتیجتاً اندوہناک سانحہ رونما ہوا۔
رپورٹ کے مطابق اس واقعہ نے ہمارے سکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ دہشتگرد پاک فوج کو آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون سے روکنا چاہتے تھے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سکیورٹی کی تمام توجہ مین گیٹ پر تھی جبکہ سکول کے پچھلے حصے پر کوئی سکیورٹی تعینات نہیں تھی جہاں سے دہشتگرد بغیر کسی مزاحمت کے سکول میں داخل ہوئے۔
فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی پر تعینات اہلکار ناصرف آنے والے حملہ اوروں کو روکنے کے ناکافی تھے بلکہ ان کی پوزیشن بھی درست نہیں تھی۔ سکیورٹی فورسز کا دوسرا دستہ بروقت سکول کی حفاظت کو نہ پہنچ سکا اور کوئیک رسپانس فورس کے آنے تک دہشتگردوں کو روکنے میں ناکام رہا۔
کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سکول کے پیچھے گشت پر موجود فورس جلتی ہوئی گاڑی کی جانب چلی گئی۔ نتیجتاً سکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک سکول سے ہٹ گئی اور دہشتگرد سکول میں داخل ہو گئے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) سے متعلق انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس پشاور سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے رپورٹ پر وفاق کا جواب عدالت میں جمع کرایا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ حکومت شہدا کے والدین کو مطمئن کرے اور ہمیں مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانا چاہیے۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو دہشتگردوں نے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پشاور کے معصوم طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد ملک کے دشمنوں کا قلع قمع کرنے کیلئے پاکستان آرمی کی جانب سے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا گیا۔
اپریل 2018 میں شہید بچوں کے والدین کی درخواست پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔ والدین کا مطالبہ تھا کہ اس کی ایک غیر جانبدار جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے تاکہ اسے نظر انداز کرنے والے متعلقہ حکام کو سبق سکھایا جاسکے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے 5 اکتوبر 2018 کو کمیشن کی تشکیل کے لیے تحریری احکامات صادر کر دیئے تھے۔ 14 اکتوبر 2018 کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں اے پی ایس سانحے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔