اسلام آباد: سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھا سےکہا کہ آپ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کر رہے ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے قانونی امور کے ترجمان نعیم پنجوتھا جج کے روبرو پیش ہوئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل اور ترجمان قانونی امور نعیم پنجوتھا نے جج سے شکوہ کیاکہ آپ کے آرڈر پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جیل میں وکلا کو چیئرمین پی ٹی آئی سے نہیں ملنے دیا جاتا۔
جس پر جج ابو الحسنات نے کہا کہ ایڈمنسٹریٹو معاملات ہیں، جیل مینوئل کے مطابق جیل میں معاملات چلتے ہیں۔
وکیل نعیم پنجوتھا نے جج سے کہا کہ آپ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو جوکہیں گے،وہ ویسا ہی کریں گے۔ جس پر جج نے کہاکہ اگر چیئرمین پی ٹی آئی سے زیادہ وکلا کی میٹنگ ہوں تو معاملات دیکھنے پڑتے ہیں۔
جج کے پوچھا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی سےمتعلق کوئی ڈائریکشن ملی؟ وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہمارے معاملات پینڈنگ رہتے ہیں۔ جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے وکیل نعیم پنجوتھا سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ مجھے کوئی ایک ایسی ملاقات سے متعلق درخواست بتا دیں جو میں نے مسترد کی؟ نعیم پنجوتھا نے کہا کہ آپ نے درخواست ضمانت مسترد کی، فرد جرم روکنے کی درخواست مسترد کی۔
جج نے کہا کہ قانونی درخواستوں کی بات نہ کریں، میں ملاقات سے متعلق درخواستوں کا کہہ رہا ہوں، میں نے سپرنٹنڈنٹ جیل کو شٹ اپ کال بھی دی تھی، سائیکل بھی اسی وقت چیئرمین پی ٹی آئی کو مہیا کرائی، آپ میٹھا میٹھا ہپ ہپ،کڑوا کڑوا تھو تھو کر رہے ہیں۔
دوران سماعت نعیم پنجو تھا نے کہا کہ سائفرکیس سیکرٹ طریقہ کار سے چلایا جا رہا ہے، صحافیوں کوبھی کوریج کی اجازت نہیں۔ صحافیوں کو نہیں لیکن کم سےکم وکلا کو تو جیل میں سماعت سننے کی اجازت دی جائے۔
جج ابو الحسنات نے کہا کہ مجھے صحافیوں سے سائفر کیس کور کرنے پر کوئی مسئلہ نہیں، صحافی قابل احترام ہیں۔سائفرکیس ہے ہی سیکرٹ ایکٹ کے تحت، ہم نے تو نہیں بنایا، قانون 1923 کا ہے۔
وکیل نعیم پنجوتھا نے مزید کہا کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان کا کمرہ عدالت بہت چھوٹا ہے۔ جس پر جج نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے سیل کی دیوار تڑوادی،کمرہ بھی تڑوادوں کیا؟
چیئر مین پی ٹی آئی کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو جوڈیشل کمپلیکس پیش کرنے پربہانے بنائے جا رہے ہیں، سپرنٹنڈنٹ جیل جان کو خطرے کا بیان دیتا ہے۔وکیل نعیم پنجوتھا کا کہنا تھا کہ انہی اداروں نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی نہیں دی، ہائی کورٹ میں معاملہ پینڈنگ ہے، نواز شریف کو تو انہوں نے پوری سکیورٹی دی ہے جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنی سکیورٹی خود لاتے تھے، عطا تارڑ بھی آجاتے تھے، بوتلیں بھی پھینکی گئیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی دینا انتظامیہ کا کام ہے، انتظامیہ نہیں دے رہی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی زندگی کو تحفظ دینا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی اہم شخصیت تو ہیں، اُن کی زندگی کا تحفظ ضروری ہے۔
جج نے وکیل نعیم پنھوتھا سے کہا کہ اٹک جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی سے میری ایک گھنٹہ بات ہوئی، چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ جیل میں محفوظ محسوس کر رہے ہیں، آپ جا کرپوچھیں چیئرمین پی ٹی آئی سے،کیا انہوں نے مجھ سے جیل میں محفوظ ہونےکی بات نہیں کی؟ چیئرمین پی ٹی آئی کے جیل میں محفوظ ہونے سے متعلق بیان کو بھی سپرنٹنڈنٹ جیل کو دیکھنا ہے، ابھی تک چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو تحفظ دے کرکیس بہت آسانی سے چل رہا ہے۔ جج کا کہنا تھا کہ میں نے 20 سال وکالت کی، وکالت کرنا آسان ہے، جج کی کرسی پر بیٹھنا مشکل ہے۔
بعدازاں جج ابوالحسنات نے چیئرمین پی ٹی آئی سے وکلا کی ملاقات سے متعلق سپرنٹنڈنٹ جیل کو ہدایت جاری کردیں۔