الحمدللہ: بالآخر پاکستان 4سال سے زائد عرصے کے بعد گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ معذرت کے ساتھ اگر یہ صرف ہمارے سیاستدانوں کے بس کی بات ہوتی تو یہ Achievment شاید خواب ہی رہ جاتی مگر اس میں پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آگے چلنے سے پہلے یہاں بتادوں کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ایک عالمی ادارہ ہے، جس کا قیام 1989 میں جی ایٹ سمٹ کے دوران ترقی یافتہ ممالک کے ایما پر پیرس میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم 2011 میں اس کا دائرہ کار وسیع کر دیا گیا۔ اس کے اختیارات میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنے اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کرنا بھی شامل ہے۔اس ادارے کے 38 ارکان میں امریکا، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔ ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے۔ امریکا میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ دہشت گردی کی فنڈنگ کی روک تھام کے لیے بھی مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے بعد اکتوبر2001 میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی مالی معاونت کو بھی شامل کر لیا گیا۔ اپریل 2012 میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری بھی اسی ٹاسک فورس کے سپرد کر دی گئی۔
خیر فیٹف نے پاکستان کو 28 جون 2018 کو گرے لسٹ میں شامل کرتے ہوئے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کیلئے ایک 34 نکاتی ایکشن پلان تفویض کیا تھا جس پر تمام اداروں نے مل کر کام کیا اور گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ایک طویل فاصلہ طے کیا۔ پاکستان اگرچہ 2021 کیلئے اپنے ایکشن پلان پر وقت سے پہلے کام مکمل کر چکا تھا اور گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے پر عزم تھا لیکن مضبوط بھارتی لابنگ کی وجہ سے گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد حکومت نے نہ صرف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف تفتیش میں اضافہ کیا بلکہ اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیے گئے گروپوں کے سربراہوں کے خلاف مقدمات بھی چلائے۔ اس سے قبل 2008 سے 2010 اور 2012 سے 2015 کے دوران بھی پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کیا جا چکا ہے اور ایک تھِنک ٹینک کے مطابق حالیہ اور ماضی کی گرے لسٹنگ کی وجہ سے ملکی معیشت تقریباً 38 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکی ہے۔ گرے لسٹ پر موجودگی کسی بھی
ملک کیلئے براہِ راست غیرملکی سرمایہ کاری اور عالمی مالیاتی اداروں سے براہِ راست قرضوں کے حصول کے امکانات میں نمایاں کمی کا سبب بنتی ہے۔ گرے لسٹ میں موجودگی کے ملکی برآمدات اور ترسیلاتِ زر پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان ایسے وقت میں گرے لسٹ سے نکلا ہے جب بھاری قرضوں‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بے پناہ اضافے اور روز افزوں مہنگائی کے سبب شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور موڈیز اور فچ جیسی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں پاکستان کی ریٹنگ کم کر چکی ہیں۔ ان حالات میں گرے لسٹ سے نکلنا معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد دے گا۔
یہ ساری چیزیں ایک طرف مگر میں سمجھتی ہوں کہ اس کا کریڈٹ واقعتا پاک فوج اور خاص طور پر آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو اس لیے جاتا ہے کہ انہوں نے جی ایچ کیو میں سپیشل سیل 2019 میں قائم کیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈی جی ملٹری آپریشنز کر رہے تھے۔ جب اس سیل نے فیٹف ایکشن پلانز کے متعلق معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا، تب تک فیٹف کے صرف 5 پوائنٹس پر عملدرآمد ہوا تھا۔اس کے بعد پاکستان نے تمام نکات پر عمل درآمد کر کے ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا۔ آرمی چیف نے بھی کلیدی کردار ادا کیا اور اداروں کے ساتھ مل کر نکات پر عمل یقینی بنایا۔ بھارت کی کوشش تھی کہ پاکستان بلیک لسٹ ہو لیکن پاک فوج نے سازش کو ناکام بنایا۔ فیٹف کے تمام نکات پر عمل کرنے کے بعد پاکستان گرے سے وائٹ لسٹ میں آ چکاہے۔ آرمی چیف کے حکم پر میجر جنرل کی سربراہی میں سپیشل سیل قائم کیا گیا تھا۔ سیل نے مختلف محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوآرڈی نیشن میکنزم بنایا جس کے تحت ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا گیا۔
سیل نے دن رات کام کر کے منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانسنگ اور بھتہ خوری پر قابو پایا۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ضمن میں تمام پوائنٹس پر عمل ہو چکا ہے۔ منی لانڈرنگ کے سدباب کے لیے تمام 7 پوائنٹس پر عمل کیا گیا جو اہم پیشرفت تھی۔ پاکستان کو فیٹف کی جانب سے 2018 میں 27 نکاتی ایکشن پلان دیا گیا تھا۔ جون 2022 میں پاکستان کے تمام 27 ایکشن آئٹمز مکمل کیے گئے تھے۔ پاکستان کی جانب سے فیٹف کا آخری ایکشن پلان بھی جون 2022 میں مکمل کیا گیا۔پاکستان کو جون 2021 میں فیٹف کی جانب سے ایک اور ایکشن پلان دیا گیا۔ پاکستان کے لیے فیٹف کے دونوں ایکشن پلانز 34 نکات پر مشتمل تھے۔ پاکستان نے 2021 کا ایکشن پلان مقرر ٹائم لائنز جنوری 2023 سے پہلے مکمل کیا۔ پاکستان نے فیٹف کے خدشات کو دور کرنے کے لیے جامع حکمت عملی اور روڈ میپ تیار کیا۔ فیٹف نے نامزد افراد کی فہرست میں پاکستان کی پیشرفت کو سراہا۔
اگر ہم اس پر بحث کریں کہ گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہے؟ تو ایف اے ٹی ایف عمومی طور پر انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور ان کے نفاذ کی نگرانی کرتا ہے۔ جن ممالک کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں تو ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اگرچہ ایف اے ٹی ایف خود کسی ملک پر پابندیاں عائد نہیں کرتا مگر ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر اقتصادی پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف ممالک کی نگرانی کے لیے لسٹس کا استعمال کیا جاتا ہے جنہیں گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کہا جاتا ہے۔بلیک لسٹ میں ان ہائی رسک ممالک کو شامل کیا جاتا ہے جن کے انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت سے متعلق قوانین اور قواعد میں سقم موجود ہو۔ ان ممالک کے حوالے سے قوی امکان ہوتا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک ان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتے ہیں۔گرے لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے جن کے قوانین اور ان کے نفاذ میں مسائل ہوں اور وہ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مل کر ان قانونی خامیوں کو دور کرنے کا اعادہ کریں۔ لہٰذا پاکستان اس لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ضرور ہوا ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں مزید اقدامات نہیںکرنے، بلکہ عالمی برادری میں اپنے آپ کو بہترین ثابت کرنے کے لیے ہمیں مزید اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ ہم مانیٹرنگ لسٹ سے ہی نکل جائیں!