قا رئین کرام، خبر کچھ یو ں ہے کہ’وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت مہنگائی کم کرنے سے متعلق اجلاس میں کم آمدنی والے افراد کو مہنگائی سے بچانے کے لیے احساس ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام جلد شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت بنیادی اشیاء کی خریداری پر رعایت ملے گی۔ وزیراعظم نے اجلاس میں کم آمدنی والوں کے لیے پٹرول پر سبسڈی دینے کا پلان بنانے کی ہدایت کی اور کہا کہ موٹر سائیکل، رکشہ اور عوامی سواری کو سبسڈی پر پٹرول دینے کا پلان پیش کریں۔ دوسری جانب پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے لیے چھٹے اقتصادی جائزے پر مذاکرات اہم مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں، جبکہ معروف بین الاقوامی جریدے ”دی اکانومسٹ“ کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے 43 ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح 9 فیصد رہی۔‘
مگر کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ مہنگائی سیلابی ریلے کی طرح نچلے اور درمیانی طبقے کو بہا کر لے جارہی ہے؟ المیہ یہ ہے کہ ملک میں تیزی سے مڈل کلاس ختم ہورہی ہے جبکہ غربت کا حجم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ امراء کی دولت میں بھی مسلسل اضافہ؛ ہورہا ہے۔ حکمرانوں کے لیے یہ حقائق باعث تشویش ہونا چاہئیں کیونکہ پاکستان میں مہنگائی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور طبقاتی توازن ٹوٹنے کا خطرہ شدید ہوگیا ہے۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سکڑ رہی ہے جبکہ غربت کی لائن پر موجود طبقہ اس لائن سے نیچے چلا گیا ہے۔ مہنگائی کی دہائی صرف معاشی ماہرین یا عوام ہی نہیں دے رہے ہیں بلکہ اب حزب اختلاف کی جماعتیں بھی مہنگائی کے خلاف ایک بڑا محاذ کھڑا کرنے جا رہی ہیں اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مہنگائی کے مسئلہ کو لے کر بھرپور احتجاج کیا جائے اور اس احتجاج کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا ہے۔ دوسری جا نب معاشی ماہرین طنز کررہے ہیں کہ ہمارے وزیر خزانہ اس ادارے کے پاس گئے ہیں جس کے بارے میں حکمران جماعت کے اکابرین بھی کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں معاشی بحران دراصل آئی ایم ایف کے پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے کئی شعبوں اور اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی۔ اب کہا جارہا ہے کہ حکومت ٹارگٹڈ سبسڈی دے گی، مگر کیا ایسا ممکن ہوسکے گا۔ کیونکہ آئی ایم ایف تو سبسڈی دینے سے منع کرتا ہے۔ بہرحال حکومت کم آمدنی والے طبقے کے افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دیتی ہے اور شفاف نظام بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ ایک اچھی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ اکنامک منیجرز اور حکومت کو یہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ گزشتہ تین سال میں کورونا وبا کی وجہ سے بعض درمیانے درجے کے کاروبار کو سخت دھچکا لگا ہے۔ لاک ڈاؤن اور کورونا ایس او پیز کی وجہ سے نجی شعبہ ڈاؤن سائزنگ پر مجبور ہوا جس کی وجہ سے لاکھوں ہنرمند اور غیرہنرمند ورکرز بے روزگار ہوئے ہیں۔ سرکاری اداروں کی نجکاری کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں، ایسے حالات میں مہنگائی خصوصاً روزمرہ استعمال کی اشیاء کی مہنگائی نے عوام کے کس بل نکال دیئے
ہیں۔اشیاء خورونوش اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کے نرخوں میں مسلسل اضافے نے مڈل کلاس گھرانوں کے لیے ماہانہ بجٹ بنانا مشکل کردیاہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی ہے۔ آٹے، چینی، خوردنی گھی، خوردنی تیل، سبزیاں، گوشت، دودھ، دہی، ادویات اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے جبکہ درمیانے اور نچلے طبقہ کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا جس کی وجہ سے ان کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔ انہیں گھر کا کچن چلانے اور بچوں کی سکولنگ میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک رف اندازے کے تحت کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں چالیس فیصد سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی آمدنی کے ذرائع انتہائی محدود ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی نے بھی پاکستانیوں کی فی کس آمدنی کو شدید متاثر کیا ہے۔ معاشی تجزیہ کار اور ماہرین عالمی سطح پر آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ داخلی سطح پر پرائس کنٹرول کے کمزور نظام اور ڈالر کی قیمت میں ہونے والے مسلسل اضافے کو بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کی مالی مشکلات میں مزید اضافہ ہونے جارہا ہے۔ توازن ادائیگی کے بحران کو حل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کہتا ہے کہ روپے کی قدر کم کی جائے، درآمد کو مہنگے کیے جانے سے درآمدی اشیا کی مانگ کم ہوجائے گی لیکن درآمدی اشیاء اگر خام مال ہو یا انڈسٹریل مشینری ہو تو اس سے صرفِ نظر کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ایسی صورت میں درآمد کردہ اشیاء مہنگی ہوجاتی ہیں جس کا اثر پوری معیشت پر پڑتا ہے۔ یہ مہنگائی انڈسٹریل گڈز اور خام مال کے مہنگا ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ملک میں صنعت بند ہونا شروع ہوجاتی ہے جیسے کہ 90 کی دہائی میں ہوا تھا۔ حکومت ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو عالمی رجحان قرار دے کر اسے کنٹرول کرنے میں اپنی معاشی حکمت عملی کی کمزوریوں کو چھپا نہیں سکتی۔ گراس روٹ لیول پر دیکھا جائے تو پاکستان میں مہنگائی ناقابل برداشت کی لائن پر کھڑی ہے۔مگرمعاشی ٹیم اب بھی دعویٰ کررہی ہے کہ معیشت درست سمت میں جارہی ہے۔ مشیر خزانہ شوکت ترین نے دعویٰ کیاہے کہ عالمی سطح پر کوکنگ آئل کی قیمت میں تقریباً پچاس فیصد کا فرق ہے جبکہ پاکستان نے یہ فرق تقریباً 30فیصد رکھا ہے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت خطے میں سب سے کم ہے۔ ایک طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور دوسری طرف وزیراور مشیر خزانہ اپنے غیرمنطقی اور غیرحقیقی بیانات سے حکومت کا مذاق بنوارہے ہیں۔ میڈیا پر غیرذمہ دارانہ بیانات کی بھرمار ہے جس سے یہ عوام میں احساس پیدا ہورہا ہے کہ سرکار کو ان کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جیسا کہ آج کل بعض وزراء یہ دعویٰ کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ پاکستان میں تیل کی قیمت برطانیہ اور یورپ کی نسبت ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں سب سے کم ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات حقائق پر مشتمل ہو لیکن ہوسکتا ہے کہ یورپ اور خطے کے دوسرے ممالک میں دودھ، دہی، علاج معالجہ، ادویات وغیرہ سستی ہوں، اس لیے کسی دوسرے ملک میں کسی ایک آئٹم کی قیمت کو بنیاد بنا کر پاکستان میں مہنگائی کی شدت کو کم بیان کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔مہنگائی کی وجہ سے عوام اور حکومت ایک دوسرے کی مخالف سمت میں آچکے ہیں۔ حکومت جس بیانیے پر چل رہی ہے، عوام کا بیانیہ اس کے برعکس ہے۔ لہٰذا حکومت کو اپنے معاشی اور سیاسی بیانیے میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا بیانیہ جس سے حکومت کو عوام کی حمایت مل سکے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت تک مہنگائی پر قابو نہیں پاسکتا جب تک کہ وہ اپنی زرعی اجناس کی پیداواری صلاحیت کو بہتر نہیں کرتا۔ اس کے لیے زرعی مداخل کی قیمتوں میں انقلابی کمی، چھوٹے کاشتکار کو منڈی میں آڑھتی اور مڈل مین کی لوٹ مار سے بچانا، کاشتکار جب اپنی فصل شہر کی منڈی میں لے کر آتا ہے تو راستے میں کئی جگہوں پر سرکاری اہلکار اس کی جیب پر حملہ آور ہوتے ہیں، اسے اس راہ زنی سے بچانا ضروری ہے۔ جدید انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے بھاری مقدار میں غذائی اجناس ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس لیے جدید کولڈ سٹوریج کو بھی انڈسٹری بنایا جائے۔ زرعی پیداوار میں کمی کا ایک سبب پانی کا ضائع ہونا بھی ہے، تقریباً آدھا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ تو تمام مسائل پر قابو پانا چاہیے تاکہ ہماری زرعی اجناس کی پیداوار بہتر ہو۔ اس سے مہنگائی کو کم کرنے میں بہت حد تک مدد ملے گی۔
زرعی شعبہ پہ تو جہ دینے کی ضر ورت
11:34 AM, 25 Oct, 2021