روزانہ اخبارات میں نئی خبریں اور سرخیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔بہت سے کالم نگار انہیں اپنی اپنی تحریر سے حکومت اور اداروں کی توجہ اُن مسائل کی طرف مبذول کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔میں آج آپ سے کچھ بے لاگ باتئں کرنا چاہتی ہوں اپنے اس کالم کے ذریعے آج ہم اگر دیکھیں تو ہر شخص جہاں اُس کو ذرا سا بھی فائدہ ملتا نظر آتا ہے تو وہ جھوٹ بولنے میں ذرا بھی پس و پیش نہیں کرتا۔آج اس گہما گہمی میں جب ہر کوئی صرف اور صرف اپنا ہی فائدہ سوچتا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی نہ تو سچ بولنا چاہتا ہے اور نہ ہی سچ سُننا چاہتا ہے۔
اگر ہم سب آج سے ہی حقیقت پسند بن جائیں تو بہت سے بگڑے تگڑے کام سنور سکتے ہیں مگر ایسا کرنے میں پہل کون کرے گا عوام،حکومت یا ہمارے ادارے؟میں نے اکثر وزیر اعظم عمران خان کو یہ بات کہتے سُنا تھا کہ وہ عام آدمی اور گراس روٹ لیول کے بندے کو اہم عہدوں پہ بٹھا کر جمہوریت کی معراج پہ پہنچنا چاہتے تھے۔یہ بات وہ تب سچ بول رہے تھے یا آج جو فیصلے کیے جا رہے ہیں وہ درست ہیں۔مگر حقیقت ایک نہ ایک دن ظاہر ہو کر رہتی ہے چاہے اس پر کتنا ہی ملمع چڑھاؤ ایک بار گدھے نے شیر کی کھال پہن لی تھی لیکن جب اُسے اپنے سامنے خطرہ نظر آیا تو ہیبت سے اپنی بولی بول دی۔
آج بھی ہر طرف جو بولیاں بولی جا رہی ہیں ذرا سوچئے؟کیا وہ سب منصب اقتدار کے اہل ہیں۔حکومت پچھلے تین سالوں سے بلدیات بلدیات کھیل رہی ہے۔کبھی وہ بلدیات کے پچھلے عہدے دار بحال کرتی ہے توکبھی بحال۔اور اگر بحال کرتی ہے تو نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے کہ نہ تو اُن کو فنڈ ایشو کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کوئی ترقیاتی کام کروا سکتے ہیں۔اس بات کی اہم وجہ جو دکھائی دیتی ہے کہ بلدیاتی اداروں پر ابھی تک ن لیگ کے کارکن بیٹھے ہیں یہ صرف بلدیات ہی میں نہیں بلکہ اور بہت سے اداروں پہ ابھی تک ن لیگ کے کارکن بیٹھے ہیں اور بقیہ اداروں پہ ادھر اُدھر کی جماعتوں سے پکڑ دکڑ کر بٹھائے ہوئے ہیں ابھی 3 سال گزر جانے کے بعد بھی نہ تو حکومت اپنی کوئی پالیسی واضح کر سکی ہے اور نہ ہی اداروں کو پوری طرح گرفت میں لا سکی ہے کیونکہ سب فیصلے تو اپم پی ایز اور ایم این ایز نے لینے تھے کہ کس کو کونسا ادارہ سونپنا ہے۔ حکومت مہنگائی کے اس طوفان کو دیکھ کر بھی ان دیکھا کر رہی ہے اس وقت پاکستان مہنگائی میں چوتھے نمبر پر آچکا ہے۔
مجھے تھوڑا تھوڑا یاد ہے آپ کو یاد ہو کہ نہ ہو وزیر اعظم عمران خان ایک بڑی خوبصورت بات کیا کرتے تھے جو سننے میں بہت لُطف دیتی تھی کہ پوری دُنیا میں ہمارے پاسپورٹ کی ولیو ہوگی لوگ باہر سے نوکریاں تلاش کرنے آئیں گے مگر یہاں اپنے ملک میں پڑھا لکھا نوجوان بے روزگار اور اُن کی بے بسی کی سسکیاں ایوانوں تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔
ایک طرف پاکستان کے انٹرنل مسائل تو دوسری طرف پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ایف اے ٹی ایف کے صدر کے مطابق پاکستان نے 34 میں 30نکات پر عمل کر لیا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ مجموعی طور پر پاکستان نے اس حوالے سے اچھی پیش رفت کی ہے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ آئندہ سال پاکستان کیلئے گرے لسٹ سے نکلنے کی خوشخبری لے کر آئے گا۔دوسری طرف پاکستان کے اندرونی حالات تین شہروں میں بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں لاہور تین دن میدان جنگ بنا رہا۔ ٹی ایل پی اور پولیس کے درمیان چھڑپیں ہوئی ہیں کئی لوگ شہید اور بے شمار زخمی ہو چکے ہیں۔ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جس جمہوری حکومت نے بھی عوام کے طاقت کا استعمال کیا وہ اگلے الیکشن میں کامیاب نہیں ہوئی۔ لہذا اس حکومت وقت کو بھی مفاہمت سے کام لینا چاہیے۔ ریمنڈ ڈیوس اور ابھی نندن جیسے لوگ اگر اس ملک سے جا سکتے ہیں تو سعد رضوی کو بھی رہا کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس کی رہائی میں کوئی ایسی بات ہوتی تو ہماری عدالتیں اس کی رہائی کا حکم نہ دیتی۔ میری تو اپنی سمجھ سے بالا تر ہے کہ سعد رضوی کی رہائی سے اس حکومت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت اس کو رہا نہیں کرتی تو پھر حالات مزید خراب ہوں گے اور اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر آئے گی۔لاہور سمیت دیگر شہروں کے کاروبار بند ہو چکے ہیں۔ حکومت کو پہلے ہی بہت سے محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے حکومت کو ایک نیا محاذ کھولنے کی کیا ضرورت ہے؟حکومت کو اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ قوم ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ناموس کے لئے اپنی جان بھی دے سکتے ہیں تو پھر اس معاملے کو بات چیت سے ہی حل کر لینا چاہیے تھا۔ اب بھی وقت ہے حکومت کو یہ معاملہ بھی بات چیت سے حل کرنا چاہیے ورنہ یہ آگ پورے پاکستان میں پھیل جائے گی۔